فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوج کی وحشیانہ کارروائیوں کے نتیجے میں ہزاروں کی تعداد میں شہری جسمانی طور پر معذور ہیں۔ ان معذوروں سے ہمدردی اور یکجہتی کے لیے وسطی غزہ میں 135 میٹر طویل ایک دیوار مختص کی گئی جس پر30 آرٹسٹوں اور خاکہ سازوں نے معذوروں یکجہتی کے لیے خاکے بنانا شروع کیے ہیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین غزہ کے وسط میں شاہراہ صلاح الدین پر واقع دیوارکو فلسطینی معذوروں کے لیے مختص کیا گیا ہے جس پر آرٹیسٹ معذوروں سے یکجہتی کے لیے خاکے بنا کران کے مسائل کو اجاگر کرنے اوران کے حقوق پر آواز اٹھانے کی کوشش کی گئی ہے۔
اس منفرد منصوبے کی نگرانی ایک خاتون سماجی کارکن ارھاف ابو الروس کر رہی ہیں۔’ انہوں نے معذوروں سے یکجہتی کے پروگرام کو’جامع معاشرہ اور حقوق سب کے لیے‘ کے عنوان سے شہریوں کو معذوروں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ یکجہتی کا مظاہرہ کرنے کی ترغیب دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم دیوار یکجہتی کے ذریعے عالمی برادری کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ غزہ کی پٹی میں اسرائیلی وحشیانہ حملوں میں ہزاروں افراد جسمانی طور پر معذور ہوچکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ معذوروں سے یکجہتی کی یہ منفرد سماجی کوشش شہریوں کی طرف سے غیرمعمولی طور پرسراہی گئی ہے۔ دیوار پرخاکے تیار کرنے میں 30 فن کار حصہ لے رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارا مقصد فلسطینی قوم کو بھی یہ پیغام دینا ہے کہ معذور افراد بھی ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں۔ ان کی دیکھ بحال اور ان کے حقوق ہماری ذمہ داریوں میں شامل ہیں۔ معذوروں کو بھی معاشرے میں دیگر شہریوں کے مساوی حقوق حاصل ہیں۔
آرٹیسٹ جہاد الغول کا کہنا ہے کہ ہم فن کاری اور خاکوں کے ذریعے معذوروں کو مایوسی کے اندھیروں سے نکال کر ان کے دلوں میں امید کے چراغ روشن کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ یہ عالمی برادری، فلسطینی قوم اور معذور افراد سبھی کو پیغام دینا چاہتے ہیں کہ معذور بھی ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں۔ وہ بھی ہماری، حکومت، عالمی برادری اور معاشرے کے ہر فرد کی توجہ کے مستحق ہیں اور ہماری ہی طرح کے انسان ہیں۔