فلسطین کے گنجان آباد علاقے غزہ کی پٹی میں سنہ 2014ء کے وسط میں صہیونی ریاست کی طرف سے مسلط کردہ اکاون روزہ جنگ کے دوران نہتے فلسطینیوں کے وحشیانہ قتل عام کے ہولناک واقعات کی ویسے تو پوری دنیا گواہ ہے مگر کئی ایسے لوگ بھی موجود ہیں جنہوں نے اس جنگ کو بہت قریب سے دیکھا۔ ان میں یورپی ملک ناورے کے ایک ڈاکٹر بھی شامل ہیں۔ ناوریجن ڈاکٹر ماڈس گبلبرٹ نے نہ صرف سنہ دو ہزار چودہ کی جنگ اپنی آنکھوں سے دیکھی بلکہ اس سے قبل غزہ کی پٹی پر مسلط کی گئی تین جنگوں کا بھی باریکی سے جائزہ لیا ہے۔
ناورے کے 69 سالہ ڈاکٹر گبلبرٹ نے حال ہی میں ترک خبر رساں ادارے’اناطولیہُ کو ایک انٹرویو دیا جس میں انہوں نے بتایا کہ بہت پہلے انہوں نے فلسطینیوں اور دنیا بھر کے مظلوم اور بے سہارا لوگوں کی طبی مدد کا فیصلہ کیا۔ یہ عزم انسانی اعتبار سے جتنا بلند تھا عملی طور پریہ اتنا ہی مشکل بھی تھا۔ اس دوران اس نے فلسطینیوں کی خاص طور پر مدد کا عزم کیا۔ اس مقصد کے لیے وہ کئی ملکوں کے سفر بھی کرتا رہا۔ سنہ 1982ء میں وہ بیروت میں تھا۔ سنہ 2006ء، سنہ 2009ء سنہ 2012 اور سنہ 2014ء کو فلسطینیوں پر مسلط کی گئی جنگوں کے دوران انہوں نے غزہ کے اندر رہتے ہوئے فلسطینیوں کی طبی مدد کی۔
بارود کے وحشیانہ استعمال میں بہ تدریج اضافہ
ناوریجن ڈاکٹر نے کہا کہ اسرائیل کی فلسطینیوں کے بارے میں پالیسی ناقابل تغیر ہے۔ انہوں نے 34 سال پہلے بھی غزہ کا محاصرہ کیا تھا اور آج بھی غزہ مکمل طور پر اسرائیل کے محاصرے میں ہے۔ صہیونی ریاست نے آج سے کئی عشرے قبل بھی فلسطینیوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کے لیے ان کے خلاف طاقت کے تمام حربے استعمال کیے، بمباری کی، میزائل برسائے، بستیاں تارج کیں، فلسطینیوں کو جیلوں میں ڈالا اور بچوں اور خواتین کا بے دردی سے قتل عام کیا اور یہ سلسلہ آج بھی پوری شدت کے ساتھ جاری وساری ہے۔ اسرائیل آج بھی فلسطینیوں کو چن چن کر نشانہ بنا رہا ہے۔ اسپتالوں پر بمباری معمول کی بات ہے، ایمبولینسوں اور اسکولوں کو بلا جھجھک نشانہ بنایا جاتا ہے۔ غزہ کے اسپتالوں، اسکول کے بچوں، اسکولوں، ایمبولینس اور زخمیوں پر بمباری کے مناظر عالمی ذرائع ابلاغ میں بھی دکھائے جاتے رہے ہیں۔ اسرائیل کے اس حربے کا مقصد فلسطینیوں کو اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے سے روکنا ہے۔
ناوریجن ڈاکٹر نے بتایا کہ سنہ 2014ء کے دوران غزکی پٹی پر مسلط کی گئی جنگ کے دوران 47 ایمبولینسوں کو بمباری کا نشانہ بنایا گیا۔ اسرائیلی یہ جانتے ہیں کہ وہ عالمی قوانین کی صریح خلاف ورزیوں کے مرتکب ہو رہےہیں مگر انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ دنیا ان کے جرائم کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔ وہ فلسطینیوں پر جس طرح مرضی ہے مظالم ڈھائیں انہیں سزا دینے والا کوئی نہیں ہے۔ اسرائیلی فوج اور حکومتوں کا یہی گھمنڈ انہیں نام نہاد سیکیورٹی کی وجوہات کی آڑ میں بار بار غزہ کی پٹی میں داخل ہونے اور بے گناہ شہریوں کے قتل عام کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اگر اسرائیلیوں کو بھی کسی عالمی قانونی چارہ جوئی، پوچھ تاچھ یا پابندی کا ڈر ہو تو وہ فلسطینیوں پر مظالم ڈھانے میں سوچ سمجھ کر قدم اٹھائیں۔
ناوریجن ڈاکٹر نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ صہیونی ریاست غزہ کی پٹی میں حکمراں اسلامی تحریک حماس کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتا ہے۔ حماس کو بدنام کرنے کے لیے اسکولوں اور اسپتالوں میں یہ کہہ کر بمباری کی جاتی ہے کہ وہاں پر اسلحہ اور جنگجو موجود ہیں حالانکہ اسرائیل کا اسپتالوں اور اسکولوں پر بمباری کا کوئی ایک جواز بھی عالمی سطح پر ثابت نہیں ہوسکا ہے۔
ڈاکٹر گبلبرٹ کا کہنا ہے کہ اسرائیل کا بہ ظاہر ہدف حماس اور اس کے کارکنان ہیں مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اسرائیلی فوج کی دہشت گردانہ کارروائیوں کا ہدف عام فلسطینی شہری ہیں۔ اگر اسرائیل اپنے دعوے میں سچا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ کسی بھی سول آبادی پر بمباری سے قبل وہاں کے عام شہریوں کو محفوظ مقامات تک منتقل ہونے کا موقع فراہم کرے۔ اس کے بعد وہاں موجود مزاحمت کاروں سے جنگ لڑے۔ انہوں نے کہا کہ امریکا اور اسرائیل دونوں غزہ کی پٹی کو اپنے نئے جنگی ہتھیاروں کی تجربہ گاہ بنانا چاہتے ہیں۔
بے پناہ جانی نقصان
اسرائیلی فوج کے جنگی جرائم کے نتیجے میں فلسطینیوں کے جانی نقصان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر گبلبرٹ نے کہا کہ میں نے غزہ کے الشفاء کمپلیکس میں جنگ کے دوران خدمات انجام دی ہیں۔ اس دوران میں غزہ کی پٹی میں طبی سہولیات سے بہت مایوس ہوا۔ مسلسل دس سال سے غزہ کی پٹی کہ ناکہ بندی کے نتیجے میں نہ صرف فلسطینیوں پر بھوک اور ننگ مسلط کی گئی بلکہ غزہ کے عوام کی بنیادی طبی سہولیات بھی ان سے سلب کرلی گئی تھیں۔ ایک طرف اسرائیل کی وحشیانہ جنگ تھی اور دوسری جانب اسپتال زخمیوں سے بھرے پڑے تھے۔ ہمارے پاس زخمیوں کے آپریشن کے لیے نہ تو آلات تھے اور نہ ہی انہیں دینے کو ادویات میسر تھیں۔ ہرطرف انسانی المیہ تھا، خون تھا، آہیں اور سسکیاں تھیں، فضاء میں بمبار طیاروں کی گھن گرج تھی اور بمباری کی تباہ کاریاں تھیں۔
ناوریجن ڈاکٹر سنہ 1970ء سے فلسطینیوں سے ہمدردی اور یکجہتی کی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے بہ تدریج فلسطینیوں کے خلاف غزہ کی پٹی میں گرائے جانے والے بموں کی مقدار اوران کے وزن میں اضافہ کرتا رہا ہے۔ ان کے بہ قول سنہ 2009ء کی جنگ کی نسبت سنہ 2014ء کی جنگ میں پانچ گنا زیادہ بارود غزہ پر گرایا گیا۔ سنہ 2014ء کے دوران غزہ کی پٹی پر مجموعی طور پر 504 ٹن بارود گرایا گیا۔ میں یہ بات آج تک نہیں بھول پایا جب ہمارے سروں بموں کے ٹکڑے ہمارے سروں کے اوپر سے گذرتے۔ بچوں کے چہرے، سر اور پورے جسم بارود سے جھلسے ہوئے ہوتے اور وہ زخمی ہونے کے کچھ ہی دیر کے بعد اسپتالوں یا ایمبولینسوں ہی میں دم توڑ جاتے۔
نارویجن ڈاکٹر نے نہ صرف غزہ میں اسرائیلی فوج کی وحیشانہ کارروائیوں کو آنکھوں سے دیکھا بلکہ انہوں نے ان چشم دید واقعات پر مبنی ایک کتاب بھی تصنیف کی۔ اپنی کتاب میں انہوں نے غزہ کی پٹی میں اسرائیل کے انسانیت سوز مظالم کے حوالے سے اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کو بھی شامل کیا ہے جس میں اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف جرائم کا قصور وار قرار دیا تھا۔
فلسطینیوں کی داستان عزم وعزیمت
نارویجن ڈاکٹر اور مصنف نے غزہ کی پٹی میں جولائی اور اگست 2015ء کے دوران 51 روزہ جنگ کا بھی تفصیلی احوال بیان کرتے ہوئے ایک باب میں فلسطینیوں کے عزم کو بھی خراج تحسین پیش کیا ہے۔
اپنی کتاب کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر گبلبرٹ نے بتایا کہ اسرائیل نے سنہ دو ہزار چودہ کی جنگ کے دوران غزہ کی پٹی میں بنیادی ڈھانچہ بری طرح تباہ کیا۔ اسپتال، اسکول، سرکاری عمارتیں تو اسرائیلی فوج کی بمباری کو نشانہ تھی ہیں غزہ کی پٹی کے بجلی گھروں، پانی کی ٹینکیوں اور شہری تنصیبات کو بے دریغ نشانہ بنایا گیا۔ کئی ہفتوں تک غزہ کی پٹی میں پانی، بجلی اور گیس سمیت دیگر بنیادی ضروریات معطل رہیں۔ مگر اس دوران فلسطینیوں کا عزم قابل دید تھا۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی شہری بمباری کے سائے میں جس جرات اور بہادری کے ساتھ متاثرہ شہریوں کی مدد کرتے اس کی مثال بیان نہیں کی جاسکتی۔ فلسطینی حقیقی معنوں میں جرات اور بہادری کی زندہ علامت تھے۔
امریکا اور یورپ پر تنقید
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر گبلبرٹ نے کہا کہ وہ غزہ کی پٹی میں شعبہ حادثات میں کئی اسپتالوں میں سرگرم رہے۔ وہ یہ استفسار کرتے ہیں کہ جو کچھ غزہ کی پٹی میں ہوا کیا اس کو دیکھ کر عالمی ادارے اسرائیل کے خلاف کسی قسم کی قانونی کارروائی سے گریز کیوں کررہے ہیں۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیمیں غزہ کی پٹی میں اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں 70 اسپتالوں کو مسمار کرنے کا نوٹس کیوں نہیں لیتیں۔
انہوں نے کہا کہ غزہ کی پٹی میں سنہ 2014ء کی جنگ میں صہیونی فوجیوں نے دانستہ طور پر اسپتالوں کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں 21 ڈاکٹر شہید ہوئے۔ 556 بچے شہید کیے اور 47 ایمبولینسوں کو بمباری کا نشانہ بنایا۔ مجموعی طور پر 2200 فلسطینی شہید ہوئے ان میں 200 خواتین شامل ہیں۔
ان تمام جرائم کے باوجود امریکا اور دنیا کے کئی ممالک اسرائیل کی مکمل سرپرستی کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا مرتکب دنیا کا سب سے بدنام ملک بن چکا ہے۔ صہیونی ریاست کے جبرو ستم کو امریکیوں کی غیر مشروط حمایت اور مدد حاصل ہے۔ جمہوریت، انسانی مساوات، بنیادی انسانی حقوق اور اپنے پیدائشی حقوق کے دفاع کے علم بردار فلسطین کے معاملے میں یہ سب عالمی اصول بھول جاتے ہیں مگر اسرائیل کے معاملے میں امریکا اور یورپ کو اصول اور بنیادی حقوق ضرور یاد آتے ہیں۔ اسرائیلی ریاست نے سنہ 1948ء کے بعد سے اب تک نو ملین فلسطینیوں کو ملک بدر کیا۔ کیا ان نو ملین انسان کوئی حقوق نہیں رکھتے ہیں۔
یورپی ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ یورپی یونین نے غزہ کی پٹی کے عوام کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کی انجام دہی میں مجرمانہ کوتاہی کا مظاہرہ کیا۔ یورپی یونین نے استعماری اور استبدادی جرائم کی مرتکب صہیونی ریاست کی دھوکہ دہی پر خاموشی اختیار کیے رکھی اور نہتے فلسطینیوں پر جرائم کی روک تھام کے لیے یورپی ادارے متحرک نہیں ہوئے۔
انہوں نے خواہش کی کہ غزہ کی پٹی کے عوام کے آلام ومصائب جلد ختم ہوں گے۔ شام، لیبیا، اور عراق کے عوام کو بھی بنیادی حقوق، امن وسلامتی اور اپنے گھروں میں رہنے کا موقع ملے گا۔