اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پیر کے روز اس تجویز پر ووٹنگ کر سکتی ہے جس میں اسرائیل اور حماس سے مطالبہ کیا جائے گا کہ وہ غزہ کی پٹی تک زمینی، سمندری اور فضائی راستوں سے امداد کی رسائی کی اجازت دیں اور انسانی امداد کی فراہمی کی اقوام متحدہ کی نگرانی قائم کریں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ سلامتی کونسل کی قرارداد کے مسودے کا دارومدار اسرائیل کے اتحادی اور سلامتی کونسل کے ویٹو پاور، امریکہ اور متحدہ عرب امارات کے درمیان حتمی مذاکرات پر ہے، جس نے اس کا مسودہ تیار کیا ہے۔
ایک امریکی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’ہم نے پورے عمل کے دوران تعمیری اور شفاف طریقے سے ایک ایسی قرارداد کے اردگرد متحد ہونے کی کوشش کی ہے جو منظور کر لی جائے گی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’متحدہ عرب امارات جانتا ہے کہ کیا منظور کیا جا سکتا ہے اور کیا نہیں، یہ ان پر منحصر ہے کہ وہ ایسا کرنا چاہتے ہیں یا نہیں۔‘ سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ ’امریکہ فائربندی کے بارے میں زبان کو نرم کرنا چاہتا ہے۔‘
خبر رساں ادارے روئٹرز کی جانب سے دیکھے جانے والے مسودے کے متن میں کہا گیا ہے کہ ’کشیدگی کے فوری اور پائیدار خاتمے کا مطالبہ کیا گیا ہے تاکہ محفوظ اور بلا روک ٹوک انسانی امداد تک رسائی ممکن ہو سکے۔‘’
اقوام متحدہ کے عہدے داروں اور امدادی اداروں نے غزہ میں بڑے پیمانے پر بھوک اور بیماری کے بارے میں خبردار کیا ہے کہ دو ماہ سے جاری اسرائیلی جارحیت کے دوران ساحلی فلسطینی علاقوں کے 23 لاکھ افراد میں سے اکثریت کو ان کے گھروں سے بے دخل کر دیا گیا ہے۔
سلامتی کونسل کی کسی بھی قرارداد کے حق میں کم از کم نو ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ امریکہ، فرانس، چین، برطانیہ یا روس کی جانب سے ویٹو کی ضرورت نہیں ہوتی۔
رواں ماہ کے اوائل میں واشنگٹن نے 15 رکنی سلامتی کونسل میں اس قرارداد کو ویٹو کر دیا تھا جس میں اسرائیل اور غزہ میں فلسطینی عسکریت پسندوں کے درمیان فوری طور پر انسانی بنیادوں پر فائر بندی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
اقوام متحدہ کی 193 رکنی جنرل اسمبلی نے گذشہ ہفتے فائر بندی کا مطالبہ کیا تھا جس کے حق میں 153 ممالک نے ووٹ دیا تھا۔
امریکہ اور اسرائیل فائربندی کی مخالفت کرتے ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ اس سے صرف حماس کو فائدہ ہوگا۔ اس کے بجائے واشنگٹن شہریوں کے تحفظ اور حماس کی جانب سے اسرائیل پر سات اکتوبر کو ہونے والے حملے میں قیدی بنائے گئے قیدیوں کی رہائی کی اجازت دینے کے لیے لڑائی میں تعطل کی حمایت کرتا ہے۔
غزہ کے محکمہ صحت کے حکام کے مطابق سات اکتوبر سے غزہ پر جاری اسرائیلی جارحیت میں 19 ہزار فلسطینی جان سے جا چکے ہیں۔
فائر بندی کی متعدد ناکام کوششوں کے بعد سلامتی کونسل نے گذشتہ ماہ غزہ کی امداد تک رسائی کی اجازت دینے کے لیے لڑائی روکنے کا مطالبہ کیا تھا۔
سات روزہ وقفہ یکم دسمبر کو ختم ہوا جس کے دوران حماس نے کچھ قیدیوں کو رہا کیا، کچھ فلسطینیوں کو اسرائیلی جیلوں سے رہا کیا گیا اور غزہ کی امداد میں اضافہ کیا گیا تھا۔
اس دوران انسانی امداد اور ایندھن کی محدود ترسیل مصر سے رفح کراسنگ کے ذریعے غزہ میں داخل ہوئی جس کی نگرانی اسرائیل کر رہا تھا لیکن اقوام متحدہ کے حکام اور امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ غزہ کے باشندوں کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے قریب بھی نہیں ہے۔
سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی اس قرارداد کے مسودے کا مقصد غزہ میں اقوام متحدہ کی جانب سے زمینی، سمندری یا ان ممالک کی جانب سے فراہم کی جانے والی امداد کی نگرانی قائم کرنا ہے جو تنازعے کے فریق نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کو ان امداد کی فراہمی سے آگاہ کرے گا۔
اتوار کے روز اسرائیل کے زیر کنٹرول غزہ میں کریم شالوم کراسنگ کو کشیدگی شروع ہونے کے بعد پہلی بار امدادی ٹرکوں کے لیے کھول دیا گیا ہے، حکام نے کہا ہے کہ اس کا مقصد غزہ تک پہنچنے والی خوراک اور ادویات کی مقدار دو گنا کرنا ہے