شنبه 16/نوامبر/2024

الخلیل شہر 6 ہزار سالہ تہذیب وتمدن اور تاریخ وثقافت کا امین!

پیر 17-جولائی-2017

فلسطین کے قدیم تاریخی شہروں کی فہرست مرتب کی جائے تو بلا شبہ القدس کے بعد الخلیل شہر کو ارض فلسطین کا قدیم ترین تاریخی شہر قرار دیا جائے گا۔

یہ شہر کئی حوالوں سے اپنی تاریخی، جغرافیائی، تزویراتی، تہذیبی،مذہبی اور ثقافتی ورثے کا امین ہے۔ دوسرے الفاظ میں ایک زائر اور سیاح کے لیے یہ عجوبہ روزگار شہر ہے۔ جہاں آنے والا ہر شہری اس کی ہمہ نوع خوبصورتی اور ہمہ جہت تاریخی اہمیت میں کھو کر رہ جاتا ہے۔

اس شہر میں موجود تاریخی عمارات فن تعمیرات کا خزانہ ہیں۔ شہر میں موجود تاریخی مسجد ابراہیمی، اس کے دروبام، بلند و بالا مینار، منفرد تاریخی گنبد اور خوبصورت و دلفریب نقش ونگار دیکھنے والے کو مبہوت کردیتے ہیں۔

مرکزاطلاعات فلسطین نے ایک رپورٹ میں تاریخی شہر الخلیل کی قدیم وجدید تہذیب، اس کی مذہبی اہمیت اور شہر کو صہیونی ریاست کی جانب سے درپیش چیلنجز پر روشنی ڈالی ہے۔ مسجد ابراہیمی میں ایک ایسا پتھر نصب ہے جو اپنی جسامت میں اتنا بڑا ہے اس کی تیاری انسانی دست ہنر کا شاہکار لگتی ہے۔ اس ایک پتھر کی لمبائی دس میٹر اور موٹائی دو میٹر ہے۔ ایسے کیسے تراشا، اٹھایا اور مسجد میں نصب کیا گیا۔ اس کے بارے میں انسانی حیران ہے کیونکہ جس زمانے میں یہ پتھر نصب کیا گیا اس دور میں نہ تو بھاری وزن اٹھانے والی کرینیں تھیں اور نہ ہی کوئی اور مشینری تھی۔ اسے دیکھ کرآج کا انسانی بھی دنگ رہ جاتا ہے۔ مسجد ابراہیمی کے منبرو محراب بھی اپنے دلفریب حسن وجمال کی وجہ سے دیکھنے والے کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں۔

الخلیل شہر کی تاریخ

الخلیل شہر کی گلیاں، بازار، سڑکیں اور قصبے ہرایک اپنی دلفریبی اور حسن میں ایک دوسرے سے بڑھ کر ہیں۔ شہر میں واقعے قصبوں میں حارۃ السواکنہ، ھارہ العقابہ، بنی دار، المشارقہ، التحتا، قیطون، الشریف، الجعبری، زاویہ ابو الریش، زاویہ الشیخ حسنی القاسمی وغیرہ اہم ترین مقامات قرار دیتے جاتے ہیں۔

شہر کے تاریخی بازاروں میں دودھ مارکیٹ، القزازین بازار، لوہار بازار اور دیگر تاریخی بازار شامل ہیں۔

معماری اور ثقافت

الخلیل شہر تاریخی محلات اور قدیم عمارات نیز اپنے منفرد فن مصوری کی وجہ سے غیرمعمولی شہرت کا حامل ہے۔

اس کی تاریخی عمارتیں شہر کی اقتصادی ترقی کا زینہ سمجھی جاتی ہیں۔ تاریخی عمارتوں میں قصور آل الدیک، آل النتشہ، الجعبری، التمیمی، الاکراد، قصر الشیخ محمد علی الجعبری، اس کے علاوہ سیکڑوں مزارات، پرانی عمارتیں، گھر، ستون، فن پارے اور گنبد شہر کے تاریخی حسن کو دوبالا کرتے ہیں۔

شہر کی تاریخی عمارات میں مسجد ابراہیمی کا تذکرہ نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ یہ تاریخی مسجد اس وقت صہیونیوں اور فلسطینی مسلمانوں کے درمیان دو حصوں میں منقسم ہے۔ سنہ 1994ء کو ایک یہودی دہشت گرد نے مسجد میں نماز فجر کے وقت نماز میں مصروف فلسطینیوں پر گولیاں چلائیں جس کے نتیجے میں دو درجن سے زاید فلسطینی شہید ہوگئے۔

مورخین کے بیانات

فلسطینی مورخ عدنان ابو تبانہ کا کہنا ہے کہ مسجد ابراہیمی کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔ تاریخی مصادر سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں مسجد ابراہیمی تعمیر کی گئی ہے وہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک پناہ گزین کے طور پر طویل عرصے تک قیام کیا تھا۔ ان کے ہمراہ ان کی اہلیہ حضرت سارہ بھی یہیں قیام پذیر رہیں۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے کنعانی بادشاد سے 3800 قبل مسیح میں زمین خرید کی۔ یہاں پر ایک غار کھودی اور حضرت سارہ کو اسی جگہ دفن کیا گیا۔ اس کے بعد حضرت ابراہیم کی اولاد میں کئی بیٹے بیٹیاں اور ان کی بیگمات کو یہیں پر ہی سپرد خاک کیا گیا۔

ابو تبادنہ کا کہنا ہےکہ حضرت ابراہیمی علیہ السلام بھی اسی غار میں مدفون ہیں۔ ان کے بیٹے یعقوب اور اسحاق کی قبریں بھی اسی جگہ ہیں۔ یہودی اس جگہ کو ’الماکفیلا‘ اور مسلمان غار ابراہیمی کہتے ہیں۔

صلیبی قبضہ

مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے ابو تبادنہ نے بتایا کہ سنہ 492ء میں صلیبی الخلیل شہر میں داخل ہوئے اور انہوں نے مسجد ابراہیمی پر قبضہ کرلیا۔ صلیبیوں نے حرم ابراہیمی کو اپنا گرجا گھر بنایا اور اسے ’سینٹ ابراہیم‘ کا نام دیا گیا۔ انہوں نے مسجد کے حرم میں ایک قلعہ بھی تعمیر کیا۔ الخلیل اور مسجد ابراہیمی پر صلیبیوں کا قبضہ 90 سال تک برقرار رہا۔ آخر کار صلاح الدین ایوبی نے الخلیل شہر اور مسجد ابراہیمی کو صلیبیوں کے تسلط سے آزاد کیا۔ انہوں نے مسجد کی جگہ تعمیر کردہ قلعہ مسمار کردیا اور اس جگہ مسجد اور مدرسہ یوسفیہ کے نام سے ایک درسگاہ قائم کی۔

ممالیک کا دور

ممالیک کےعہد حکومت میں الخلیل شہر میں کئی عمارتیں اور محلات تعمیر کیے گئے۔ ممالیک نے مسجد ابراہیمی کی تعمیر نو کی۔ مسجد کی توسیع کے ساتھ ساتھ وہاں پر متعدد بازار بھی قائم کیے۔

ممالیک کے دور میں الخلیل شہر اور مسجد ابراہیمی فلسطین کے اہم ترین ثقافتی اور تہذیبی مراکز بن گئے۔  انہوں نے مسجد ابراہیمی کے لیےحرمین شریفین کی طرز پر ناظر مقرر کیے۔ ممالیک بادشاہ سنجر الجاولی نے اپنی جیب خاص سے مسجد کی مرمت کرائی۔ آج بھی ممالیک کے دور میں کی گئی تعمیرات مسجد ابراہیمی اور الخلیل  شہر میں موجود ہیں جومسلمانوں کے خوبصورت فن تعمیرات کے شاہکار ہیں۔

صہیونی قبضہ

سنہ 1967ء کی چھ روزہ عرب۔ اسرائیل جنگ کے دوران صہیونی ریاست نے غرب اردن پر قبضہ کیا تو الخلیل شہر بھی صہیونیوں کے زیرتسلط آگیا۔ صہیونیوں نے مسجد ابراہیمی اور اس سے ملحقہ درسگاہوں کے لیے مختص  اوقاف کی اراضی ہتھیائی۔ مسجد ابراہیمی کے اطراف اور الخلیل شہر میں جگہ جگہ یہودی کالونیوں کا جال بنایا۔ شہر کے تاریخی بازاروں پرقبضہ کیا۔ تاریخی بازار، مدرسہ الدبویا، مدرستہ سامہ بن المنقذ، مرکزی بس اسٹیشن، تل ارمیدہ، شاہراہ شہداء اور دیگر مقامات پر یہودی آباد کار بسائے گئے۔

یہودی آباد کاری کے امور کے ماہر عبدالھادی حنتش کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے الخلیل پر غاصبانہ تسلط قائم کرنے کے بعد شہر کی اسلامی تاریخی، تہذیبی اور عرب شناخت کو مٹا کر نہ صرف مسجد ابراہیمی کو تقسیم کردیا بلکہ شہرپر یہودیت کی چھاپ کے لیے طرح طرح کے مکروہ حربے بھی آزمائے جانے لگے۔

یہودی آبادکاری کے خطرات

مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے فلسطینی دانشور الحنتش نے بتایا کہ قابض اسرائیلی حکومت نے الخلیل شہر کے گرد دسیوں یہودی کالونیاں تعمیر کرکے شہر کی تاریخ واور تہذیب وتمدن کو ایک نئے اور سنگین خطرے سے دوچار کردیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اسرائیلی انتظامیہ الخلیل شہر میں واقع تاریخی مقامات کی توڑپھوڑ کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے۔ شہر کے اسلامی تشخص کی نمائندگی کرنے والے مقامات اور علامات کو مٹایا جا رہا ہے۔ یہودیوں کو سہولیات فراہم کرنے اور انہیں فول پروف سیکیورٹی مہیا کرنے کے لیے جگہ جگہ دیوار فاصل کی تعمیر نے الخلیل کا نقشہ ہی بدل دیا ہے۔

صہیونی ریاست نے عملا یہودیی کالونیوں کےقیام سے الخلیل شہر کو ٹکڑوں میں تقسیم کررکھا ہے۔ شہر کے مشرق میں حاجائی کالونی، عتنائیل، سوسیہ، ماعون کرمئیل، معالیہ ہافار، مٹاساڈا آسفر، مٹساڈ شمعون، شمال میں کارمی زور، خاصینا، افرات، تقوع، عتصیون، جنوب میں بیت یائر، شیمعہ، تینہ اور مغرب کی سمت میں نیگوھو، وافقیقس، سوریت، تیلم اور ناحیل ادرویم نامی یہودی کالونیاں قائم کی گئی ہیں۔

یونیسکو کی فہرست میں شمولیت

حال ہی میں اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے ’یونیسکو‘ نے الخلیل شہر اور مسجد ابراہیمی سمیت کئی تاریخی جگہوں کو بین الاقوامی ثقافتی ورثے میں شامل کرتےہوئے الخلیل پر اسرائیلی دعوے کو باطل قرار دیا۔

یونیسکو کی جانب سے منظور کردہ قرارداد میں نہ صرف الخلیل کو عالمی ثقافتی ورثے کا حصہ قرار دیا گیا ہے بلکہ واضح کیا گیا ہے کہ الخلیل شہر کو اسرائیل کی طرف سے سنگین نوعیت کے خطرات لاحق ہیں۔ قرارداد میں خبردار کیا گیا ہے کہ اسرائیل مسجد ابراہیمی سمیت الخلیل شہر کی تاریخی نشانیوں کو یا تو مٹا رہاہے یا ان پر یہودیت اور عبرانیت کا رنگ چڑھانے کی مذموم کوشش کی جا رہی ہے۔

الخلیل بلدیہ کے وائس چیئرمین انجینیر یوسف الجعبری نےالخلیل کو بین الاقوامی تاریخی اور ثقافتی ورثہ قرار دینے  کو فلسطینی قوم کی فتح قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یونیسکو نے الخلیل کی اسلامی تاریخی اور تہذیب اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے شہر پر صہیونی ریاست کا قبضہ اور دعویٰ باطل قرار دیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ مسجد ابراہیمی کی تقسیم بھی غلط اور ناجائز اقدام ہے۔ یونیسکو کے فیصلے سے مسجد ابراہیمی کی تقسیم کو بھی باطل قرار دیا گیا ہے۔

مختصر لنک:

کاپی