بھارت اور اسرائیل کے درمیان حالیہ قربت کوئی اچنبھے کی بات ہرگزنہیں۔ مبصرین کا اس بات پراتفاق ہے کہ بھارت میں کانگریس پارٹی کی سیاسی شکست اور اقتدار دائیں بازو کی انتہا پسندانہ نظریات رکھنے والی ’بھارتی جنتا پارٹی‘ بی جے پی کے ہاتھ میں آنے کے بعد دہلی اور تل ابیب کے درمیان قربت بالکل متوقع تھی۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا پیش گوئی کی علامت بننے والا دورہ اسرائیل بھی خلاف توقع نہیں۔ وہ اس دورے سے کیا نتائج حاصل کرنا چاہتے تھے؟ کوئی انوکھا سوال نہیں ہوسکتا۔
اس کے اسباب ومحرکات بھی واضح ہیں۔ ’بی جے پی‘ کی انتہا پسندانہ قومیت اور پُرتشدد نظریات میں نیتن یاھو کی قیادت میں قائم اسرائیلی سیاسی اشرافیہ کوشامل کرنا مودی کا مقصد تھا۔
’بی جے پی‘ اور اسرائیل کےدرمیان تعلق جنبانی ایک عشرہ قبل اس وقت قائم ہوگیا تھا جب مودی ریاست گجرات کے وزیراعلیٰ تھے، مگر اس تعلق کا دائرہ اب ان کے حالیہ دورہ تل ابیب سے مکمل ہوا۔ دونوں میں سیاسی اور معاشی تعلق داری نے گذشتہ عشرے میں انڈے دینا شروع کردیئےتھے اور ان کا مقصد ہیرے جواہرات کی گجرات میں واقع صنعت کو ہدف بنانا اور سورت بندرگاہ سے دو طرفہ تجارت شروع کرنا تھا۔
انٹیلی جنس معلومات کا تبادلہ اور مودی کے سیاسی سرمائے کا استحکام جس نے انہیں انتخابات میں غیرمعمولی کامیابی سے ہم کنار کیا اسرائیل کی تزویراتی منصوبہ بندی کا ’ٹریڈ مارک‘ ہے۔ یہی مودی اور ان کی جماعت پر اسرائیل کا ایک قرض تھا جس کے باعث انہیں اسرائیل کا ممنون احسان رہنے کا احساس تھا۔
ہوائی جہاز سے اتر کرنیتن یاھو سے بغل گیری کےدوران مودی نے نہاں خانہ دل میں اسرائیل کے لیے اپنی احسان مندی کا اظہار کیا۔ ان کا یہ انداز اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ جس ملک کو سنہ 1950ء کے اوائل میں بھارت کی آزادی کے بعد تنہا کرنے کا ہدف طے کیا گیا تھا کے ساتھ اب معاملات دوسرے انداز میں طے ہوں گے۔
بھارت کے اعلان آزادی کے بعد دہلی ’غیر وابستہ تحریک‘ [NAM] میں شامل ہوا۔ اس وقت بھارت نے فلسطین میں نوآبادیاتی نظام اور جنوبی افریقا میں اپارتھائیڈ رجیم کی مخالفت کی، مگرتل ابیب میں اپنے شاہانہ استقبال کے لیے بچھائے گئے سرخ کالین پر وہ طمطراق کے ساتھ چلتے یہ پیغام دے گئے کہ اسرائیل نے بھارت کے حوالے سے ماضی کی ’تلخ‘ یادیں اب قصہ پارینہ ہیں۔
گویا سارا منظر راتوں رات تبدیل ہوگیا۔ حالانکہ بھارت فلسطینیوں کی تحریک آزادی کا پرزور حامی رہا تھا۔ اب بھارت نے فلسطینیوں کے حوالے سے زیادہ متکبرانہ اور معاندانہ موقف اپنا کر نہ صرف فلسطینیوں کے حقوق کی مخالفت کی بلکہ سابقہ قیادت کی قائم کردہ روایات سے انحراف کیا ہے۔
مودی اور ان کی جماعت ’بی جے پی‘ سابقہ موقف کو فراموش کردیا اور ساتھ ہی برطانوی راج کے خلاف اپنی آزادی کی جدو جہد اور برطانوی نوآبادیاتی سسٹم کے خلاف جدو جہد کو نظرانداز کردیا۔ برطانیہ کے خلاف خود ہندوستان نے مزاحمت کا اصول اپناتے ہوئے یہ طےکیا تھا کہ ایک مغلوب قوم کے پاس مزاحمت کے سوا اور کوئی چارہ نہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ [مزاحمت] ایک عالمی سطح پر تسلیم شدہ حق تھا جس کی منظوری اقوام متحدہ نے 1982ء میں دے دی تھی۔
’جنرل اسمبلی نے آزادی کے لیے کسی بھی طبقے یا قوم کو جدو جہد کرنے یا غیر ملکی قبضے کے خلاف مسلح جدو جہد سمیت تمام ذرائع استعمال کرنے کا حق دیا تھا‘۔
ایک ہی وقت میں ایک قابض طاقت بننے اور متکبرانہ انداز میں مظلوم قوم کے تسلیم شدہ حقوق کو تسلیم کرنے سے انکار نے مودی کی اصلیت بے نقاب کردی۔ ان کی اسرائیل نوازی سے آشکار ہوگیا کہ ’بی جے پی‘ اور اس کی قیادت نے ہندوستان کی اس میراث کو کھو دیا ہے جو استعماری نظام کی مخالف پالیسی کا طرہ امیتاز تھی۔
بیانیہ ایئربرش میں تبدیل کرنے سے ماضی کے حقائق تبدیل نہیں کیے جا سکتے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کہ فلسطین نوآبادیاتی نظام کا شکار اور مقبوضہ علاقہ ہے۔ غاصب استعماری رجیم نیوکلیر ہتھیاروں سے لیس فوجی طاقت کے ذریعے اپنے مذموم عزائم مسلط کررہی ہے۔ اسے امریکا کی طرف سے مکمل تحفظ اور حمایت میں پروپیگنڈہ حاصل ہے۔ امریکا نے صف اول کی عرب ریاستوں کو بھی اپنا تحادی بنا رکھا ہے اور یہ ریاستیں اپنی بقاء کے لیے امریکی طاقت پر انحصار کرنے لگی ہیں۔ امریکا ان ملکوں کو ’دہشت گردی‘ کے خطرے کا جھانسہ دے انہیں اپنے چنگل میں پھنسائے ہوئے ہے۔ امریکا کے دیکھا دیکھی مغربی دنیا اور با اثر طاقتیں اس بات پر یقین کرنے لگی ہیں کہ مسلح جدو جہد کی حمایت گویا دہشت گردی کی حمایت کے مترادف ہے۔
عالمی سطح پر مسلح جدو جہد کے حوالے سے اختیار کردہ بیانیہ مودی کے جارحانہ اور بے ہودہ موقف کو سپورٹ کرتا ہے۔ بہت سے دوسرے ملکوں کی نسبت بھارت کوایسا بیانیہ زیادہ قبول ہے کیونکہ اس بیانیے میں فلسطین کی طرح مقبوضہ جموں و کشمیر میں اسے اپنے مظالم کو جاری رکھنےکا جواز مل رہا ہے۔
مقبوضہ کشمیر کے عوام بھی بھارتی فوج کی وحشت و بربریت کا سامنا کر رہے ہیں۔ مزاحمت کی پاداش میں کشمیریوں کی وسیع پیمانے پر گرفتاریاں، اجتماعی سزائیں، تشدد اور قتل سے مودی سرکار کی پالیسی کی عکاس ہیں۔
بھارت اور اسرائیل کے درمیان استعماری محور دراصل دونوں ملکوں کے درمیان اسلحے کی تجارت کا ایک ذریعہ ہے۔ وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ان حربی اور جنگوں میں ملوث سعودی عرب، مصر، امارات اور بحرین جیسے ملکوں کے ایمان اور عقیدے کا مواد ہے۔
یہ چار رکنی گروپ اسرائیل کی اعلانیہ حمایت اور وفاداری کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ مودی جیسے لوگوں کو بھی حوصلہ دے رہا ہے کہ وہ مظلوم اقوام کے مسلمہ حقوق کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ چاہے وہ فلسطین یا کشمیر ہی کیوں نہ ہوں۔
شاید نیتن یاھو کو یہ گمان ہو کہ انہوں نے اپنے حریف کو مغلوب کرلیا مگر جنوبی افریقا کے استعماری نظام اور اس کے منصوبہ سازوں کی طرح صہیونی ریاست کا استعماری اور نوآبادیاتی سسٹم بھی جلد زوال پذیر ہوگا۔ چاہے اس میں مودی اسرائیل کی حمایت میں الٹا کیوں نہ لٹکنے لگے۔