اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو نے گذشتہ روز برطانیہ کے صدر مقام لندن میں عالمی امور سے متعلق ریاستی انسٹیٹیوٹ ’چاتھم ہاؤس‘ میں 80 منٹ کا خطاب کیا۔ اپنی اس لمبی چوڑی تقریر میں صہیونی وزیراعظم نے اپنے طور فلسطینیوں کے ساتھ امن معاہدے کے ممکنہ پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالی۔
عبرانی اخبار ’ہارٹز‘ کی رپورٹ کےمطابق نیتن یاھو نے لندن میں تقریب سے خطاب میں کہا کہ فلسطینی ریاست کے قیام پر بات کرنے سے قبل ہمیں معاصر تاریخ میں حاکمیت اور غیرمحدود حاکمیت پر غور کرنا ہوگا۔ کیا ہم حاکمیت کا فلسفہ دنیا کے ہرخطے میں نافذ کرسکتے ہیں۔
جب ان سے فلسطینی ریاست کے قیام کے بارے میں بات کرنے کو کہا گیا تو انہوں نے کہا کہ عرب ممالک کے جن علاقوں پر مغربی اور اسرائیلی فوج موجود تھی انہیں خالی کرنے کے بعد مسائل میں اضافہ ہی ہوا کیونکہ خالی کردہ علاقے اسلام پسندوں کے تسلط میں آگئے۔ اس کی سب سے بڑی مثال ہمارے سامنے غزہ کی ہے۔ گویا ہم امن کو دہشت گردی میں تبدیل کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے نزدیک اسرائیل کا دفاع اور سلامتی مقدم ہے۔ اس لیے ہم ایسی فلسطینی ریاست کی بات کرسکتے ہیں جس کی سرحدوں اور فضائی حدود پر فلسطینیوں کا نہیں بلکہ اسرائیل کا اختیار ہو۔ مبصرین نے نیتن یاھو کے اس فلسفے کو ’بے بال وپر‘ فلسطینی ریاست کا تصور قرار دیا ہے۔
نیتن یاھو نے اپنے 80 منٹ کے لیکچر میں کہا کہ امن کے بدلے زمین اچھا تصور ہے مگر زمین کے بدلے دہشت گردی قبول نہیں۔ اس کے بعد اسرائیلی وزیراعظم نے فلسطین میں یہودی بستیوں کی تعمیر روکنے اور کالونیاں خالی کرنے کے فلسطینی مطالبے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی عرب علاقوں سے یہودیوں کو نکالنے کا مطالبہ کیوں کرتے ہیں، کیا امن کے لیے ہمیں بھی اسرائیل سے فلسطینیوں کو نکال باہر کرنا ہوگا؟۔