برطانیہ کی وزیراعظم تھریسا مے نے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے سے متعلق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا فیصلہ مسترد کردیا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق اپنے ایک بیان میں وزیراعظم تھریسا مے نے کہا کہ انجام کار القدس کو اسرائیل اور فلسطینی ریاست کا مشترکہ دارالحکومت ہونا چاہیے۔ القدس کے بارے میں کوئی فیصلہ عالمی قراردادوں سے ماورا نہیں ہونا چاہیے۔ ہم مشرقی بیت المقدس کو فلسطینی اراضی کا حصہ سمجھتے ہیں اوراس کے بارے میں کوئی بھی اقدام فلسطین اور اسرائیل کے درمیان تنازع کے حل میں کھلم کھلا رکاوٹ قرار دیتے ہیں۔
تھریسا مت نے کہا کہ ان کی حکومت کا القدس کے حوالے سے موقف واضح ہے وہ امریکی صدر کی طرف سےالقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے اور سفارت خانہ القدس منتقل کرنے کے اعلان کے خلاف ہیں۔
برطانوی وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں امریکی صدر کے فیصلے سے کلی اتفاق نہیں۔ جب تک فلسطینی اور اسرائیل آپس میں بات چیت کے ذریعے کسی ایک حل تک نہیں پہنچ پاتے ہم اس وقت تک القدس کے بارے میں کیے گئے کسی بھی ملک کے اقدام کی توثیق نہیں کرسکتے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکی صدر کے اعلان سے امن کی کوئی خدمت نہیں ہوئی بلکہ خطے میں دیر پا قیام امن کی مساعی میں ایک نئی رکاوٹ کھڑی ہوگئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ القدس کے بارے میں ان کی مخالفت کی وجہ القدس کی متنازع حیثیت ہے۔ جب تک مذاکرات کے ذریعے تنازع کے دونوں فریق کسی ایک حتمی حل تک نہیں جاتے کسی ملک کو القدس کے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انجام کار کے طور پر القدس کو اسرائیل اور فلسطینی ریاست کامشترکہ دارالحکومت ہونا چاہیے۔
برطانوی وزیراعظم نے کہا کہ ہم فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان تنازع کے منصفانہ حل کے حوالے سے ہونے والی مذاکراتی کوششوں کی حمایت کریں گے۔ دونوں فریقین کو مل کر یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ آیا ان کا جغرافیائی حدود اربعہ کیا ہے۔
خیال رہے کہ بدھ کے روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا تھا بیت المقدس اسرائیل کا دارالحکومت ہے۔ انہوں نے وزارت خارجہ کو ہدایت کی کہ وہ امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے القدس منتقل کرنے کے لیے تیاری شروع کرے۔