تجزیہ نگاروں اور مبصرین نے خبردار کیا ہے کہ امریکا کی جانب سے فلسطینی اتھارٹی کی امداد بند کیے جانے کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ امداد کی بندش سلامتی اور استحکام کے لیے خطرہ ہے۔ بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہےکہ فلسطینی اتھارٹی کی امداد کی بندش القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیے جانے کے ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان سے زیادہ خطرناک امر ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چند روز قبل ’ٹویٹر‘ پر اپنے متعدد پوسٹوں میں لکھا کہ ’ہم فلسطینیوں کو ہر سال کروڑوں ڈالر کی امداد دیتے ہیں مگر اس کے بدلے میں ہمیں کوئی احترام نہیں ملتا۔ فلسطینی مذاکرات بھی نہیں کرتے۔ اسرائیل کے ساتھ امن بات چیت کو مسلسل التوا میں ڈالا جا رہا ہے‘۔ ٹرمپ کے اس بیان کے بعد صحافتی حلقوں میں شدت کے ساتھ یہ بحث جاری ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کا مستقبل کیا ہوگا؟ صحافتی حلقوں میں سوال اٹھایا جا رہاہے کہ کیا ٹرمپ کےدھمکی آمیز بیانکے بعد فلسطینی اتھارٹی کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔
ٹرمپ نے اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ’فلسطینی اہم نہیں چاہتے۔ ہم انہیں امداد کیوں دیں۔ فلسطینیوں کو مستقبل میں بھاری رقم دینے کی کوئی ضرورت نہیں‘۔ مگر سچ پوچھیں تو ٹرمپ کا یہ بیان حیران کن نہیں۔ یہ بیان امریکا کی فلسطینیوں کے خلاف پالیسی کا عکاس اور غماز ہے۔ امریکا نے ہمیشہ مالی امداد کو اپنے سیاسی آلے کے طورپراستعمال کیا ہے۔ فلسطینیوں کے لیے امداد کو اذیت ناک شرائط سے مشروط کیا جاتا رہا ہے۔ امریکا کی جانب سے امداد کے بدلے میں پیش کی جانے والی شرائط فلسطینی قوم کے مفادات اور ان کےقومی پروگرام کے خلاف رہی ہیں۔
کیا امریکا کی جانب سے فلسطینی اتھارٹی کی امداد بند کرنا نقصان دہ ہوگا؟۔ نہیں ہرگز نہیں۔ امریکیوں کی طرف سے امداد کی بندش فلسطینیوں کے لیے مفید ثابت ہوگی اور اس کے دور رس نتائج سامنے آئیں گے۔ اگرچہ وقتی طور پر فلسطینی قوم کو مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا مگر امریکی حکومت کا ایسا کوئی بھی اقدام فلسطینیوں کو خودکفالت کی طرف جانے کا موقع فراہم کرے گا۔ اسی طرح اسرائیل کے امریکی امداد صہیونی ریاست کے لیے بالواسطہ اور براہ راست دونوں طرح سے مفید ہوں گی۔ امریکا نے امداد کے ذریعے فلسطینیوں میں ہمیشہ پھوٹ ڈالنے کی کوشش کی مگر صہیونی ریاست کی یہ پالیسی زیادہ عرصہ نہیں چلے گی۔ اس طرح فلسطینی اتھارٹی کی امداد کی بندش مضر نہیں بلکہ مفید ثابت ہوگی۔
امریکی کانگریس کی دستاویزات کے مطابق فلسطینیوں کے لیے امریکی امداد کا مقصد ’اسرائیل کے خلاف ’دہشت گردی‘ کی روک تھام ہے۔ دوسرے الفاظ میں امریکا فلسطینیوں کو اسرائیل کے تحفظ کے لیے امداد دےرہا ہے۔ کیا اس امداد کو ہم فلسطینیوں کی امداد قرار دیں یا اسرائیل کی امداد سمجھیں؟۔
گویا امریکا کی اصل پالیسی سب سے پہلے اسرائیل کی سلامتی ہے۔ امریکا فلسطینی سیکیورٹی اداروں کو اس لیے امداد دیتا ہے تاکہ وہ صہیونی ریاست کی سلامتی کے لیے کام کریں اور اسرائیل کی خاطرف فلسطینیوں کی تذلیل اور توہین کریں۔ اسرائیل کے آباد کاروں کو تحفظ دیں اور یہودی توسیع پسندی کی کارروائیوں میں صہیونیوں کی مدد کریں۔ یہ امداد اسرائیل کی اقتصادی ترقی اس کی کمپنیوں کے فروغ فلسطینی معیشت کو گدوں کی طرح نوچنے والی اسرائیلی کمپنیوں کو مستحکم کرنے کے لیے دی جاتی ہے۔ فلسطینی اتھارٹی پر اقتصادی وسائل کی لوٹ مار کے لیے اسرائیلی کمپنیوں اور اداورں کو سہولت فراہم کرنے کے لیے دی جاتی ہے۔
یہاں میں اس بات کا اضافہ کرتا چلوں کہ امریکا کی طرف سے فلسطینی اتھارٹی کو دی جانے والی امداد کا 72 فی صد سیکیورٹی اداروں کو ادا کیا جاتا ہے مگر یہ امداد بھی اسرائیل کے مفاد میں دی جاتی ہے۔ امریکا کی طرف سے دی جانے والی امداد فلسطینیوں میں انتشار، پھوٹ، بے اتفاقی اور باہمی لڑائی جھگڑے کا موجب بنتی ہے۔ گذشتہ دس برسوں کے دوران امریکا نے امداد کے ذریعے فلسطینیوں کو آس میں دست وگریباں رکھنے کی کوشش کی۔ فلسطینی اتھارٹی کے سیکیورٹی ادارے امریکی امداد پر اپنے ہی شہریوں کے خلاف طاقت کا استعمال کرتےہیں۔ یوں امریکی امداد فلسطینی قوم کی بہبود اور مدد کے لیے نہیں بلکہ صہیونی ریاست کی ضروریات پوری کرنے کے لیے دی جاتی ہے۔
فلسطینیوں کو دی جانے والی امداد دو اہم ذرائع سے ادا کی جاتی رہی ہے۔ ایک ذریعہ امریکی ترقیاتی ادارہ’USD‘ ہے اور دوسرا ذریعہ امریکی سیکیورٹی رابطہ کار جسے ڈایٹون ٹیم کا نام بھی دیاجاتا ہے۔ یہ دونوں ادارے نہ صرف بین الاقوامی امداد کے اصولوں کو پامال کرتے ہیں بلکہ فلسطین میں اسرائیل کے استعماری اور جابرانہ نظام کو آگے بڑھانے میں مدد دیتے ہیں۔ گذشتہ پچیس سال کے دوران امریکا نے فلسطینیوں کو جو بھی امداد فراہم کی وہ اسرائیل کے مفادات کے لیے تھی نہ کہ فلسطینیوں کے مفاد کے لیے۔ اس طرح 3 یا 4 کروڑ ڈالر کی رقم بند ہونے سے فلسطینی اتھارٹی کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔
قصہ مختصر یہ کہ امریکیوں کی طرف فلسطینی اتھارٹی کی امداد بند ہونےسے فلسطینی قوم پر کوئی بڑا منفی اثر نہیں پڑے گا۔ فلسطینیوں کو امریکیوں کی چند پھوٹی کوڑیوں کی پرواہ بھی نہیں ہونی چاہیے۔ فلسطینی قوم کو اپنے بنیادی اور اساسی حقوق کی فکر دامن گیررہنی چاہیے۔ امریکا، یورپ یا کوئی عرب ملک فلسطینیوں کی امداد بند کرتا ہے تو فلسطینی قوم کو اس کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔ فلسطینی قوم کو دی جانے والی امداد فلسطینیوں کو نہیں بلکہ دراصل اسرائیلیوں کو دی جاتی ہے۔ یہ امداد فلسطینی قوم کے مسائل میں اضافہ ہی کرتی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی فلسطینیوں کی امداد کی بندش کی دھمکی فلسطینی اتھارٹی کے لیے ایک نیا موقع ہے۔ فلسطینی اتھارٹی بلیک میل کرنے والے ممالک کی امداد پر انحصار کے بجائے قوم کے حق خود ارادیت کے حصول کے لیے جدو جہد شروع کرے۔