جہاد فلسطین کے میدان کے نمایاں ناموں میں اسلامی جہاد کے موجودہ سیکرٹری جنرل رمضان عبداللہ شلح کا شمار صف اول کے رہ نماؤں میں ہوگا۔
رمضان عبداللہ شلح ان دنوں عارضہ قلب کے باعث لبنان کے دارالحکومت بیروت کے ایک اسپتال زیرعلاج ہیں، مگر اطلاعات ہیں کہ ان کی صحت کافی خراب ہے۔ شاید یہ بیماری ان کے لیے جان لیوا ثابت ہوجائے۔
مرکز اطلاعات فلسطین نے عبداللہ شلح کی زندگی اور ان کی خدمات پر ایک رپورٹ میں روشنی ڈالی ہے۔
رپورٹ کے مطابق عبداللہ شلح بیروت کے ایک اسپتال میں ایرانی طبی ماہرین کی زیرنگرانی زیرعلاج ہیں۔ یہ اسپتال لبنانی مزاحمتی تنظیم حزب اللہ کا ہے اور وہی اس کی نگرانی کرتی ہے۔
شلح سنہ 1958ء کو غزہ کےعلاقے الشجاعیہ میں ایک دیندار اور بڑے گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے بہن بھائیوں کی تعداد 11 تھی۔ سنہ 1981ء میں انہوں نے مصر کی الزقازیق یونیورسٹی سے علم الاقتصادیات میں تخصص کیا۔
واپسی پر غزہ کی پٹی میں اکنامک کے استاد مقرر ہوئے۔ اگرچہ وہ پیشے کے اعتبار سے اقتصادی امور کے استاد تھے مگران کے جذبہ جہاد نے انہیں جہادی فکرپرغور کرنے کی طرف مبذول کیا۔ یوں وہ ایک معلم سے بڑھ کر ایک قدم آگے ایک جہادی مبلغ کے طورپر مشہور ہونے لگے۔ حسب روایت ایک جہادی رہ نما کے طورپر اسرائیل کو ان کا وجود گوارا نہیں تھا۔ اسرائیل نے انہیں یونیورسٹی کی ملازمت سے محروم کرنے کےبعد گھر پر نظر بند کردیا۔
سنہ 1986ء میں رمضان شلح فلسطین سے لندن اعلیٰ تعلیم کے لیے روانہ ہوئے اور برطانیہ سے سنہ 1990ء میں اقتصادیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ وہاں سے وہ کویت، لندن اور امریکا کے سفر پرآتے جاتے رہے۔ سنہ 1993ء سے 1995ء تک انہوں نے امریکی ریاست فلوریڈا کی یونیورسٹی میں مڈل ایسٹ اسٹڈیز کے استاد کے طورپر خدمات انجام دیں۔
سنہ 1995ء میں اسرائیل کے بدنام زمانہ خفیہ ادارے’موساد‘ نے اسلامی جہاد کے رہ نما فتحی الشقاقی کو مالٹا میں ایک قاتلانہ حملے میں شہید کردیا۔ تب تک رمضان شلح اسلامی جہاد سے متعارف ہوچکے تھے۔
وہ ابھی مصر کی جامعہ الزقازیق میں تھے جب ان کا تعارف فتحی الشقاقی کےساتھ ہوا۔ اس دوران انہوں نے اخوان المسلمون کے نظریات اور سید قطب کی کتب کا مطالعہ کیا۔
سنہ 1970ء کی دھائی میں فتحی الشقاقی اور عبدالعزیز عودہ کی قیادت میں اسلامی جہاد کے بارے میں مصرمیں سرگرمیاں شروع ہوئیں۔
سنہ 1980ء اور اس کے بعد فتحی الشقاقی فلسطین واپس آئے اور ایک مسلح اور عوامی جماعت کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے مسلح جدو جہد کو آزادی فلسطین کا واحد راستہ قرار دیا اور عملا اس تحریک کی قیادت شروع کردی۔
دمشق میں قیام کے دورام فتحی الشقاقی اور شلح کے درمیان ملاقاتیں ہوئیں اور یہ سلسلہ چلتا رہا۔ یہاں تک 1995ء میں الشقاقی کو شہید کردیا تھا۔ اس کے بعد تنظیم کی قیادت نے رمضان شلح کو جماعت کا نیا سربراہ چنا۔
دوسری تحریک انتفاضہ کے دوران اسرائیل نے رمضان شلح پر کئی جہادی کارروائیوں اور مزاحمتی حملوں میں ملوث ہونے کی براہ راست ذمہ داری عاید کی۔
سنہ 2017ء کے آخر میں امریکی تحقیقاتی ادارے ’ایف بی آئی‘ نے شلح کو 26 عالمی اشتہاریوں کی فہرست میں شامل کیا۔
امریکی حکام ا سے قبل سنہ 2003ء میں شلح کو دہشت گردی کی فہرست میں شامل کرچکے ہیں۔
سنہ 2007ء میں امریکا نے شلح کے سر کی قیمت مقرر کی اور ان کی زندہ یا مردہ گرفتاری اور معلومات فراہم کرنے پر 50 لاکھ ڈالر کا انعام مقرر کیا گیا۔
شلح کے بارے میں دو متضاد بیانات سامنے آئے ہیں۔ اسلامی جہاد کے ایک مقرب ذریعے کا کہنا ہے کہ رمضان عبداللہ شلح کو چند ہفتے قبل دمشق میں قیام کے دوران دل کا دورہ پڑا اور انہیں وہاں سے بیروت کے ایک اسپتال منتقل کیا گیا۔
بیروت میں فلسطین کے سرکاری ذرائع نے فلسطینی انٹیلی جنس حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ رمضان شلح کو زہر دیے جانے کا شبہ ہے۔
فلسطینی سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ زہر دیے جانے سے متعلق بھی دو خیال ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ ایک یہ انہیں موساد کی طرف سے زہر دے کر مارنے کی کوشش کی گئی جب کہ دوسرا ذریعہ کہتا ہے کہ انہیں ایک دوسرے عرب ملک کے انٹیلی جنس اداروں نےزہر دی تھی۔
اسلامی جہاد کی طرف سے باضابطہ طور پر جاری کردہ بیان میں زہر دیے جانے کے خدشے کو مسترد کیا ہے اور کہا ہے کہ جماعت کے سربراہ کو چند ہفتے قبل دل کا شدید دورہ پڑا تھا جس کے بعد انہیں دمشق سے بیروت لایا گیا ہے۔
اسلامی جہاد کے رہ نما احمد المدلل کا کہنا ہے کہ رمضان شلح طبعی بیماری کا شکار ہیں۔ انہیں زہر دے کر شہید کیے جانے کی سازش کی خبریں جھوت ہیں۔ اس وقت وہ ایرانی ڈاکٹروں کی زیرنگرانی زیرعلاج ہیں اور ان کا باریکی کے ساتھ علاج جاری ہے۔
بعض عرب ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ اسلامی جہاد اور ایران کے درمیان بعض امور میں اختلاف کے بعد تہران نے جماعت کی مالی مدد کم کردی تھی جس کے باعث اسلامی جہاد مالی بحران کا بھی شکار ہے۔