اسرائیل کی دو درجن جیلوں میں قید سات ہزار سے زاید فلسطینیوں کو ہمہ نوع اذیتوں اور منظم غیرانسانی سلوک کا سامنا ہے مگر عالمی برادری فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کو جاننے کے باوجود آنکھیں بند کیے ہوئے ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق حال ہی میں انسانی حقوق کے مندوبین کے ایک گروپ نے اسیر فلسطینی جمال الھور المعروف ابو تقی کے اہل خانہ سے ملاقات کی۔ جمال الھور مقبوضہ مغربی کنارے کے جنوبی شہر الخلیل میں صوریف کے رہائشی ہیں۔
الھور کے اہل خانہ سے ہونے والی ملاقات سے پتا چلا کہ صہیونی جلاد فلسطینی قیدیوں سے منظم انداز میں غیرانسانی برتاؤ کرتے ہیں۔
اسیر کے اہل خانہ نے بتایا کہ تشدد کا یہ سلسلہ الھور تک محدود نہیں بلکہ قابض فوج ان کے بیوی بچوں اور خاندان کے دیگر افراد کو بھی مسلسل تشدد کا نشانہ بنا رہی اور ہراساں کررہی ہے۔
اہل خانہ نے بتایا کہ اسیر الھور کو اسرائیلی عدالت سے پانچ بار عمر قید کی سزا کےساتھ 18 سال اضافی قید کی سزا سنا رکھی ہے۔ وہ اسلامی تحریک مزاحمت [حماس] کے عسکری ونگ عزالدین شہید القسام بریگیڈ کے رہ نما جمال الھور کے بڑے صاحبزادے ہیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے ان کے بیٹے تقی نے کہا کہ یوم اسیران ہرسال ہمارے زخموں کو تازہ کردیتا ہے۔ ہم نے متعدد بار نفحہ جیل میں قید اپنے والد سے ملاقات کی کوشش کی۔ ہمیں ان کی مسکراہٹ ہمیشہ یاد رہے گی۔ وہ ایمان اور قرآن قائم رہنے کے ساتھ اس امید سے بھی وابستہ ہیں کہ ان کی اسیری کا عرصہ زیادہ طویل نہیں اور وہ جلد رہائی اور آزادی کی نعمت سے بہر مند ہوں گے۔
امید سے خالی سرگرمیاں
اسرائیلی زندانوں میں پابند سلاسل فلسطینیوں کو دی جانے والی اذیتیں مسلسل بڑھتی جا رہی ہیں۔
اسیران کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ اگرچہ قومی یوم اسیران کے موقع پر سرکاری ، سیاسی اور قومی سطح پر قیدیوں سے یکجہتی کے اظہار کے لیے کئی طرح کی سرگرمیاں منعقد کی جاتی ہیں مگر ان کا کوئی خاطر خواہ اثر یا فایدہ نہیں ہوتا۔
بعض اوقات کسی اسیر کی ماں اپنے بیٹے کی یاد میں دھرنے دیے ہوتو اس کے اطراف میں اس کے ساتھ یکجہتی کرنے والے افراد کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ اسیران کا مسئلہ پوری قوم کا نہیں۔
کلب برائے اسیران کے چیئرمین قدورہ فارس کہتےہیں کہ رواں سال اسیران کے حوالے سے درد ناک گذرا۔ ہم نے اسیران کے معاملے کو ہرسطح پر اجاگر کرنے کی پوری کوشش کی اور تمام تر توانائیاں صرف کیں۔ انتظامی قیدیوں نے اپنی بلا جواز حراست کے خلاف اسرائیلی عدالتوں کا بائیکاٹ کیا۔ فلسطین میں شہر شہر اسیران کی حمایت میں ریلیاں نکالی گئیں۔ دوسری جانب صہیونی ریاست نے فلسطینی بچوں، خواتین اور شعبہ ہائے زندگی کے دیگر افراد کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری رکھا۔
زندگی کے قیمتی اوقات کا ضیاع
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے قدورہ فارس نے کہا کہ صہیونی ریاست کی طرف سے فلسطینی شہریوں کی گرفتاریوں کی منظم مہمات جاری ہیں۔ اس وقت اسرائیلی زندانوں میں قید فلسطینیوں کی تعداد 6500 ہوگئی ہے۔ ان میں 62 خواتین شامل ہیں جن میں 21 مائیں اور 8 کم عمر بچیاں ہیں۔
مجرمانہ عالمی خاموشی
قدورہ فارس کا کہنا ہے کہ اسرائیلی زندانوں میں پابند سلاسل فلسطینیوں کو طرح طرح کی اذیتیں دی جاتی ہیں۔ اسرائیلی قید خانوں میں اذیتیوں کے نتیجے میں 72 فلسطینی قیدیوں کو شہید کیا جا چکا ہے۔ 61 فلسطینی اسرائیلی جیلوں میں بیماریوں کے باعث لا علاج رہتے ہوئے زندگی کی بازی ہار گئے۔ سات کو جیلوں پر دھاووں میں شہید کیا گیا۔ 75 کو دانستہ طورپر گولیاں مار کر شہید کیا گیا۔
انسانی ھقوق کے مندوب عیسیٰ عمر نے فلسطینی اسیران کےساتھ اسرائیلی برتاؤ پر عالمی برادری کی مجرمانہ غفلت کی مذمت کی۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اسرائیلی قید خانوں میں ڈالے گئے فلسطینیوں کے ساتھ کس طرح کا ناروا سلوک کیا جاتا ہے مگر اس کے باوجود بین الاقوامی برادری مجرمانہ خاموشی کا شکار ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے عمرو نے کہا کہ صہیونی جیلر، فوج اور پولیس اسیران کےحوالے سے بین الاقوامی قوانین کی کھلے عام پامالی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ قیدیوں کو چوتھے جنیوا معاہدے کے تحت حاصل حقوق سے مکمل محروم رکھا گیا ہے۔ عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں بار بار فلسطینی قیدیوں سے ہونے والے جنگی جرائم پر احتجاج کرتی رہی ہیں مگر مجموعی طورپر عالمی برادری کی چُپ سادھ رکھی ہے۔