بھارت کے آئین کی دفعہ 35-A کی منسوخی کے بھارتی منصوبے اور تازہ شہادتوں کے خلاف مقبوضہ کشمیرمیں دوروزہ مکمل ہڑتال شروع ہو گئی۔ شہادتوں کیخلاف مظاہرے جاری ہیں۔
دفعہ 35-A کے تحت کشمیر کے مستقل باشندوں کو خصوصی مراعات حاصل ہیں اور اس دفعہ کی وجہ سے ہی غیر کشمیریوں کو مقبوضہ علاقے میں زمین اور دوسری جائیداد خریدنے کی اجازت نہیں ہے۔ اس آئینی شق کی منسوخی کے بعد خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں اسرائیلی طرز کی آباد کار بستیاں بنانے کی سازش بنا لی۔ اس حوالے سے بھارتی سپریم کورٹ سے آج فیصلہ آنے کا امکان ہے۔ کشمیری رہنماﺅں کو خدشہ ہے کہ ارب پتی بھارتی سرمایہ کار اب مقبوضہ کشمیر میں مغربی کنارے کی طرز پر آباد کاروں کی بستی بسا لیں گے اور مقامی کشمیریوں کو قید کی جگہ بھی نہیں ملے گی۔
دو روزہ احتجاجی ہڑتال شروع ہونے پرسید علی گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق کو اپنی رہائش گاہوں پر نظر بند رکھا گیا۔ ریل سروسز بھی معطل کردی گئی ہیں۔
اس کے علاوہ ہندووں کی امرناتھ ےاترا بھی عارضی معطل کر دی گئی ہے۔ دفعہ 35-A کی منسوخی سے بھارتی شہریوں کے مستقل طور پر مقبوضہ کشمیر میں آباد ہونے کی راہ ہموار ہوگی اور اگر ایسا ہوتا ہے تو مقبوضہ علاقے میں آبادی کا تناسب خود بخود تبدیل ہوجائے گا۔ کئی شہروں میں شہدا کی غائبانہ نماز جنازہ بھی ادا کی گئی ۔ شق کی منسوخی کی کوششوں کیخلاف احتجاج کیلئے سرینگر اور دیگر شہروں میں بڑے پیمانے پر مظاہرے کئے گئے۔ سکھ اور پنڈت برادریوں کے ارکان نے بھی مظاہروں میں حصہ لیا۔
میرواعظ عمر فاروق اور محمد یاسین ملک سمیت حریت رہنماﺅں اور دیگر کی قیادت میں مظاہرین نے آزادی اور پاکستان کے حق اور بھارت کے خلاف فلک شگاف نعرے لگائے۔ حریت رہنماﺅں نے کہا کہ کشمیری عوام اپنے لہو سے دفعہ 35-A کا دفاع کرنے کیلئے تیار ہیں۔
بھارتی پولیس نے مختلف مقامات پر مظاہرین پر طاقت کا وحشیانہ استعمال کیا جس سے متعدد افراد زخمی ہوگئے۔ دوسری جانب جموں کے ضلع رام بن میں اتوار کی صبح بھارتی فوج نے فائرنگ کر کے جانوروں کے کشمیری تاجر 28 سالہ رفیق گوجر کو شہید کر دیا جبکہ اس کا ساتھی 30 سالہ شکیل احمد شدید زخمی ہوگیا۔ دریں اثنا شوپیاں میں ہفتے کو بھارتی فوج کے ہاتھوں شہید ہونے والے 7 نوجوانوں کو سپردخاک کر دیا گیا۔