فلسطین میں صحافیوں کے حقوق کے لیے سرگرم کمیٹی کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 30 مارچ 2018ء کو غزہ کی مشرقی سرحد پر شروع ہونے والے فلسطینی احتجاجی مظاہروں کے دوران اسرائیلی فوج کی طرف سے طاقت کا وحشیانہ استعمال کیا گیا جس کے نتیجے میں دیگر شہریوں کے ساتھ کئی صحافی شہید اور سیکڑوں زخمی ہوچکے ہیں۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق غزہ میں جرنلسٹ سپورٹ کمیٹی کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 30 مارچ کے بعد اب تک غزہ میں مظاہروں کی کوریج کرنے والے صحافیوں کو اسرائیلی فوج کی طرف سے براہ راست گولیاں ماری جاتی رہیں۔ قابض فوج کی گولیاں لگنے سے 247 صحافی زخمی ہوچکے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج کے نشانہ باز دانستہ طور پر صحافیوں کی ٹانگوں کو نشانہ بناتے ہیں تاکہ وہ مظاہروں کی کوریج کرنے کے لیے محاذ پر مظاہرین کے شانہ بہ شانہ چل پھر نہ سکیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صہیونی ریاست کی طرف سے اپنے جنگی جرائم کو عالمی برادری سے مخفی رکھنے کا ایک مکروہ حربہ صحافیوں کو ہراساں کرنا بھی ہے۔ غزہ میں صحافیوں کو دانستہ طور پر گولیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ان کی ٹانگیں توڑ دی جاتی ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قابض فوج نے 30 مارچ کے بعد اب تک 247 صحافیوں کو زخمی کیا۔ ان میں 32 خاتون صحافی بھی شامل ہیں۔ 78 صحافی قابض فوج کی طرف سے کی گئی سیدھی فائرنگ سے زخمی ہوئے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوج صحافیوں کو اس لیے بھی نشانہ بنا رہی ہے کیونکہ عالمی سطح پر صہیونی حکومت فوج کو صحافیوں پر حملوں کے حوالے سے کسی قسم کی پوچھ تاچھ کا سامنا نہیں، اگر اس حوالے سے عالمی سطح پر کوئی آواز بلند کی بھی جاتی ہے تو صہیونی حکومت اپنے جنگی جرائم چھپانے کے لیے دوسرے بہانے تراش لیتی ہے۔