عرب ممالک اورقابض عبرانی ریاست کے درمیان تعلقات پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ گذشتہ کچھ برسوں کے دوران عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے لیے پینگیں بڑھاتے رہے ہیں مگر اس حوالے سے 2018ء کے دوران صہیونی ریاست اور عرب ملکوں کے باہمی تعلقات کے لیے کیے جانے والے اقدامات زیادہ نمایاں دکھائی دیے۔ کئی عرب ممالک کو اسرائیل کے ساتھ در پردہ تعلقات قائم کیے ہوئے تھےوہ کھل کر سامنے آنے لگے اور انہوں نے صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات کے قیام کے لیے زیادہ شدو مد کے ساتھ کوششیں شروع کردیں۔
سال 2018ء کے دوران عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان غیر مسبوق روابط شروع ہوئے۔ اسرائیلی قونصل خانوں اور سفارت خانوں نےعرب ملکوں کے ساتھ رابطوں میں تیزی کے ساتھ اقدامات کیے۔ صہیونی قونصل خانوں اور سفارت خانوں نے عرب سفارت کاروں کے لیے دروازے کھول دیے۔ ہنگامی اور در پردہ تعلقات حقیقی اور اعلانیہ سفارتی روابط میں تبدیل ہونے لگے۔
یہ تاریخ کا سیاہ پہلو ہے جس میں عرب ممالک نے قابض صہیونی ریاست کے ساتھ "نارملائیشن’ کے اقدامات شروع کیے مگر تصویر کا دوسرا اورسورج کی طرح روشن پہلو اسرائیل کا عالمی سطح پر ہونے والا بائیکاٹ ہے۔ صہیونی ریاست کےبائیکاٹ کے اقدامات بھی غیر مسبوق دیکھے گئے۔
عرب ۔ اسرائیل تعلقات
اسرائیلی امور کے تجزیہ نگار عدنان ابو عامر نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی طرف سے عرب ممالک پر جو تعلقات کے قیام کے لیے جو تصفیہ مسلط کیا جا رہا ہے اس نے عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کو ایک قدم اور آگے بڑھا دیا ہے۔ اب اسرائیل اور عرب ممالک غیر سفارتی تعلقات سے آگے بڑھ کر سفارتی اور اعلانیہ تعلقات کے باب میں داخل ہوگئے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں عدنان بوعامر نے کہا کہ اسرائیل ایک سوچے سمجھے منصوبے تحت عرب ممالک کے ثقافتی، تاریخی، اخلاقی اور دینی پہلوئوں کو اپنے زیراثر لا کران کے ساتھ سفارتی، اقتصادی اور ثقافتی معاہدے کرے جس کے نتیجے میں اسرائیل خطے اور عالمی تنہائی سے نکل سکے۔
سال 2018ء کے دوران کئی اسرائیلی لیڈروں کو عرب ممالک کے دوروں کی دعوت دی گئی۔ بحرین نے اسرائیلی وزیر اقتصادیات ایلی کوھین کو رواں سال اپریل میں ہونے والی اقتصادی کانفرنس میں شرکت کی باضابطہ طور پر دعوت دی ہے۔
حال ہی میں اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو نے بتایا کہ چاد کے صدر ادریس دیبی سے کہا کہ وہ مستقبل قریب میں کئی دوسرے عرب ملکوں کے دورے کریں گے۔ گذشتہ برس نومبرمیں وہ سلطنت اومان کا دورہ کرچکے ہیں۔
نیتن یاھو کے بیان کے بعد اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے مصدقہ ذریعے کے حوالے سے بتایا کہ عن قریب نیتن یاھو سوڈان کا بھی دورہ کریںگے۔ تاہم سوڈان کی حکومت نے صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے کسی قسم کی پیش رفت کی سختی سے تردید کی ہے۔ اسرائیل کے قومی سلامتی کے چیئرمین میئربن شبات متعدد عرب اور مسلمان ملکوں کا دورہ کرچکے ہیں۔ ان دونوں کا مقصد صہیونی ریاست اور عرب اور مسلمان ممالک کے ساتھ تعلقات کے قیام کو آگے بڑھانا ہے۔
اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر ڈانی ڈانونن کا کہنا ہے کہ انہوں نے اقوام متحدہ میں کئی عرب اور مسلمان ممالک کے سفیروں کے ساتھ رابطے کیےہیں اور ان کے ساتھ ہونے والی بات چیت میں اسرائیل اور عرب دنیا کے درمیان تعلقات پر بات چیت کی گئی۔
فلسطینی تجزیہ نگار عدنان ابوعامر کا کہنا ہے کہ اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات اتنا آسان تو نہیں کیونکہ صہیونی ریاست کو قبول کرنے والی حکومتوں کو اپنے عوام کے شدید رد عمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اگر حکومتوں کی حد تک اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار ہوبھی جاتے ہیں تب بھی صہیونی ریاست اور دیگر عرب اور مسلم اقوام کے درمیان قومی، تاریخی، دینی اور تہذیبی روابط کا بعد قائم رہے گا۔
بائیکاٹ کی تحریک
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ صہیونی ریاست اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات کے قیام کے متوازی ایک دوسری تحریک چل رہی ہے جو اس کے برعکس ہے۔ یعنی صہیونی ریاست کے بائیکاٹ کی تحریک۔ اس تحریک کے سرخیل فلسطینیوں کے ساتھ ساتھ وہ بین الاقوامی انسانی حقوق کے ادارے اور زندہ ضمیر کارکن ہیں جو نہ صرف عرب اور مسلمان ممالک بلکہ امریکا اور مغرب میں بھی صہیونی ریاست کے اقتصادی، سفارتی، سیاسی اور دیگر شعبوں میں بائیکاٹ کے لیے کام کررہے ہیں۔
صہیونی ریاست کے بائیکاٹ کی عالمی تحریک "BDS” کے عنوان سے جانی جاتی ہے۔ اس تحریک نے عالمی سطح پر دور رس اثرات مرتب کیے ہیں۔ اس کی مساعی کے نتیجے میں اسرائیل اور اس کی تیار کردہ مصنوعات کے بائیکاٹ میں اضافہ ہوا اور اس کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کے آئینی حقوق کی حمایت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
گذشتہ برس صہیونی کو عالمی سطح پر بائیکاٹ تحریک نے سرمایہ کاری کے بائیکاٹ کے جھٹکے لگائے۔
سال 2015ء کو اسرائیلی وزارت خزانہ نے ایک بیان جاری کیا جس میں تسلیم کیا گیا کہ بائیکاٹ تحریک نے ایک سال کے دوران اسرائیل کو تقریبا 14 کروڑ70 لاکھ ڈالرکا نقصان پہنچایا۔ سی این بی سی کے مطابق بائیکاٹ تحریک کے نتیجے میں 2014ء سے 2014ء تک اسرائیل کو 80 ارب ڈالر کا نقصان پہنچ سکتا ہے۔