فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس آئے روز غزہ کی پٹی کے عوام کے خلاف انتقامی اقدامات کرتے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے غزہ کے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بند کر دیں جس پرغزہ کے عوام میں شدید غم وغصے کی فضاء پائی جا رہی ہے۔
غزہ کی پٹی کے مُعمر فلسطینی سرکاری ملازم نے بنک کے ساتھ ٹیک لگاتے ہوئے انتہائی پریشانی میں خود کلامی کرتے ہوئے کہا کہ اب میں اپنے بچوں کو کیا کہوں گا؟ میں ان کے لیے طعام کا انتظام کیسے کروں گا۔ میں اپنے بیٹے محمد سے کیسے کہوں گا کہ میں اب اس کی یونیورسٹی کی تعلیم جاری رکھنے میں مدد نہیں کرسکتا اور میں ملاک کے اسکول کی فیس کیسے ادا کروں گا؟
یہ کسی ایک فلسطینی کا احوال نہیں بلکہ غزہ کی پٹی کے ہزاروں ملازمین کو ایسے ہی حالات سے دوچار کردیا گیا۔ صدر عباس ایک ہی وقت میں خود کو حکمران اور جلاد ثابت کررہے ہیں۔ انہوں نے غزہ کی پٹی کے عوام سے ان کی امیدیں چھین لیں۔ وہ خود 80 سال کے ہوگئے ہیں مگر غزہ کے عوام کو سسک سسک کر جان دینے پر مجبور کررہے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ پہلے کون کرے گا؟ محمود عباس یا غزہ کے عوام۔
فلسطینی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ محمود عباس اوران کی ماتحت اتھارٹی نےغزہ کے عوام کو ایک منصوبے کے تحت مشکلات سے دوچار کر رکھا ہے تاکہ غزہ کے عوام اسلامی تحریک مزاحمت ‘حماس’ کے خلاف علم بغاوت بلند کرسکیں۔
فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس نے غزہ کی پٹی کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کے بعد اقتصادی، سماجی ، تعلیم اور صحت کے شعبوں کو نشانہ بنایا گیا۔
غزہ کے عوام پر فلسطینی اتھارٹی کی معاشی پابندیوں کا آغاز مارچ 2017ء میں اس وقت ہوا جب حماس نے غزہ کی پٹی کے لیے ایک انتظامی کمیٹی کا اعلان کیا۔ یہ اس وقت کیا گیا جب غزہ کی پٹی کو قومی حکومت میں شامل کرنے کی حماس کی کوششیں ناکام ہوگئیں اور فلسطینی اتھارٹی نے انتقامی سیاست کا مظاہرہ کرتے ہوئےغزہ کے عوام پر اقتصادی پابندیاںعاید کر دیں۔
صدر عباس کی طرف سے یہ انتقامی حربہ جان بوجھ کرکیا گیا کہ غزہ کی پٹی پر 2007ء سے پابندیاں عاید ہیں۔ صدر عباس نے غزہ کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کٹوتی کو ایک معاشی کوڑے کے طور پر استعمال کیا۔
اس کے بعد صدر عباس کی طرف سے بار بار اقتصادی پابندیاں عاید کی جاتی رہیں۔ فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے ایسے کئی فیصلے صادر کیے گئے جن میں غزہ کے عوام کو مشکلات سے دوچار کیا گیا۔ تجزیہ نگار ایاد القرا کا کہنا ہے کہ صدر عباس کی طرف سے غزہ کی پٹی کے عوام کی مشکلات میں اضافے کا سلسلہ یہاں ختم ہونے والا نہیں۔
مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صدرعباس کے انتقامی حربے جاری ہیں اور وہ خاموشی کے ساتھ غزہ کے عوام کو حماس کے خلاف بغاوت پر مجبور کر رہے ہیں۔
تجزیہ نگار حسام الدجنی کا کہنا ہے کہ صدر عباس کی طرف سے غزہ کے عوام کے خلاف انتقامی کارروائیوں میں اضافہ غزہ کے عوام کو تنہا کرنے کی کوشش ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے الدجنی کا کہنا تھا کہ غزہ کی پٹی کےملازمین کی تنخواہوں کی بندش سے غزہ کی پٹی معیشت پر منفی اثرات مرتب کرے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ صدر عباس غزہ کے عوام کے سامنے تین آپشن پیش کیے ہیں۔ پہلا یہ کہ غزہ کی پٹی کے عوام کو سڑکوں پر لایا جائے اور انہیں حماس کے خلاف بغاوت پر اکسایا جائے۔ اس طرح وہ غزہ کو ایک خانہ جنگی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔
دوسرا آپشن حماس کو اسرائیل کے خلاف جنگ کی طرف لے جانا اور حماس اور اسرائیل کو ایک دوسرے کے ساتھ جنگ میں الجھانا ہے۔
تیسرا مقصد حماس پر معاشی دبائو ڈال کر اسے غزہ کی پٹی میں اقتدار سے الگ کر کے غزہ کی پٹی کو فلسطینی اتھارٹی کی عمل داری میں لانے کی کوشش کرنا ہے۔ اس طرح وہ حماس کو ہتھیار ڈالنے اور اسے غرب جیسے حالات سے دوچار کرنا ہے۔