فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی میں وقفے وقفے سے اسرائیلی ریاست کی بمباری اور اس کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کے آثار ہر طرف موجود ہیں مگر فلسطینیوںنے اس ملبے کے ڈھیر سے بھی دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ فلسطینی قوم بالخصوص غزہ کےعوام ابھی زندہ ہیں، ان کی مزاحمت اور آزادی کی امنگ اور جدو جہد بھی زندہ و بیدار ہے۔
حال ہی میں غزہ میں اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں تباہ ہونے والے مکانات کے ملبے پر مختلف جماعتوں کے کارکنوں نے ایک منفرد سرگرمی کے ذریعے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ فلسطینی قوم اور اس کی مزاحمت زندہ ہے۔
"مقلوبة المقاومة.. حياة فوق الركام”. کے عنوان سے شروع کی گئی مہم کا مقصد یہ تھا کہ اسرائیلی فوج کے ہاتھوں تباہی اور بربادی کے باوجود فلسطینی قوم کی مزاحمت زندہ ہے۔
‘مقلوبۃ’ ایک مقامی فلسطینی اور عرب پکوان ہے جو عام طور پر پورے سال اور خاص طور پر ماہ صیام میں روزہ داروں کی افطاری اور سحری کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔
اس منفرد سرگرمی کے منتظمین کا کہنا ہے کہ ان کا مقصد اسرائیل اور پوری دنیا کو یہ پیغام دینا تھا کہ فلسطینی قوم کی مزاحمت کی روح زندہ اور تازہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ فلسطینی قوم کے لیے اس میں یہ پیغام پنہاں ہے کہ فلسطینی جہاں اور جس حال میں بھی ہوں وہ مزاحمت کی روح کو زندہ رکھیں گے۔
المقلوبۃ جہاں القدس اور مسجد اقصیٰ میں افطاری کے دستر خوانوں میں پایا جاتا ہے وہیں یہ غزہ کی پٹی میں بھی مقامی سطح پر خواتین گھروں میں تیار کرتی ہیں۔
سماجی کارکن عادل زعرب نے کہا کہ ‘المقلوبہ’ قابض اسرائیل کے لیے ایک چیلنج، فلسطینی قوم کے استقلال اور ثابت قدمی کی علامت ہے اور ہم نے غزہ میں اسرائیلی بمباری سے تباہ ہونے والے گھروں کے ملنے پر یہ پکوان رکھ کر دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ فلسطینی قوم سے آزادی کا جذبہ کوئی طاقت نہیں چھین سکتی۔
انہوں نے کہا کہ مقلوبہ غزہ کے عوام ہی کا نہیں بلکہ پورے فلسطین کی ثقافت اور کلچر کا حصہ ہے۔ آج ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ فلسطینی قوم آزادی کے حصول کی جدوجہد کررہی ہے۔ غزہ میں مقلوبہ تیار کر کے بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کے قریب کی خواتین کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
خیال رہے کہ مئی کے اوائل میں اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی پر وحشیانہ بمباری کرکے 100 مکانات مکمل اور 700 کو جزوی طور پر نقصان پہنچایا تھا۔
المقلوبہ فلسطین کے مشہور عوامی پکوانوں میں سے ایک ہے۔ اگرچہ اب یہ مختلف انداز میں ایک ہی نام سے دوسرے عرب ملکوں میں بھی تیار کیا جاتا ہے مگر اس کا آغاز فلسطین ہی سے ہوا۔ بحیرہ روم کے ساحل کےعلاقوں میں یہ ڈش زیادہ مقبول ہے۔ ساحلی علاقوں کے لوگ مچھلی کے ساتھ یہ پکوان تیار کرتے ہیں جب کہ پہاڑی علاقوں میں چکن یا مٹن وغیرہ کا استعمال کیا جاتا ہے۔
پرانے زمانے میں فلسطینی ‘بازنجانیہ’ کے نام سے یاد کرتے تھے۔ اس کی وجہ اس کی تیاری میں بینگن کا استعمال ہے۔ یہ اتنا پراناپکوان ہے کہ اس کے بارے میں ایک روایت یہ ہے کہ یہ بیت المقدس کی فتح کے وقت صلاح الدین ایوبی اور اس کے لشکر نے بھی کھایا تھا۔ یہ پسندیدہ پکوان مہمانوں کی خاطر مدارت میں استعمال کیا جاتا۔