اسرائیل میں 17 ستمبر کو ہونے والے کنیسٹ کے انتخابات میں وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کی جماعت ‘لیکوڈ’ اور ان کے حریف ‘بینی گینٹز’ کی ‘بلیو وائٹ’ پارٹی کی تقریبا ایک جیسے نتائج حاصل کیے ہیں مگر بلیو وائٹ پارٹی کو نیتن یاھو کی جماعت پر تین سیٹوں کی سبقت حاصل ہے۔ نیتن یاھو نے شکست کا اعتراف کیا ہے۔
نیتن یاھو کی جماعت 31 اور بینی گینٹز کی 33 نشستوں پرکامیاب ہوئی ہے جس نے اسرائیل میں سیاست کا ایک نیا رخ متعین کردیا ہے۔ ایسے میں صہیونی ریاست ایک نئے سیاسی بحران کی طرف بڑھ رہی ہے۔ عرب اتحاد نے 9 نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔
آوی گیڈور لائبرمین کی جماعت ‘یسرایل بیتونیو’،الٹرا آرتھوڈوکس اور ھتوراۃ پارٹی نے آٹھ آٹھ نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔
انتہائی بائیں بازو کی جماعت اور لیبر پارٹی (6 نشستیں) اور بائیں بازو کے ڈیموکریٹک کیمپ (ڈیموکریٹک کیمپ) کوپانچ نشستیں ملیں۔
نیتن یاھو کا اعتراف شکست
انتخابی نتائج آنے کے بعد نیتن یاھو نے اپنے حریف بینی گانٹز کو تجویز پیش کی کہ دونوں جماعتیں مل کر قومی یکجہتی حکومت تشکیل دیں۔ حکومت کی آدھی مدت میں وزارت عظمیٰ نیتن یاھو اور باقی آدھی میں بینی گانٹنز سنبھالیں تاہم موخر الذکر نے اس کی تجویز مسترد کردی۔
قومی حکومت کی تشکیل دراصل نیتن یاھو کا شکست کا اعتراف ہے۔ وہ آج تک انتخابات میں اپنی کامیابی کو اپنی طاقت سمجھتے رہے ہیں مگر اس بار اسرائیلی عوام نے انہیں زیادہ اہمیت نہیں دی۔
مختلف منظر نامے
اسرائیل میں آنے والے دنوں میں سیاسی نقشے کی خبریں اور منظرنامے پیش آنے لگے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ حریدی مذہبی یہودی گروپ ‘کاھل لاوان’ کے ساتھ مل کر حکومت میں شامل ہوں مگر اس سے قبل حریدی گروپ یائرلبید کے ساتھ حکومت میں شمولیت کی تجویز کو مسترد کرچکے ہیں۔
اگرچہ حریدی نے اس اقدام کی وضاحت کی ہے کہ اس سے نیتن یاہو کو کاہل لاوان کو اپنی حکومت میں شامل کرنے کی اجازت دیں گے۔اس طرح کے فیصلے سے بھی حریدیوں کو بینی گینٹز کی زیرقیادت حکومت میں شامل ہونے کا موقع مل سکتا ہے۔
ایسے منظر نامے کی پیش گوئی کرنا مشکل معلوم ہوتا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اسرائیلی عوام کی اکثیر لبرل، یا سیکولر حکومت کے قیام کی زیادہ اور پرجوش حامی ہے۔۔ دوسرے الفاظ میں اسرائیل میں بننے والی حکومت میں عوام کی اکثریت "حریدی” گروپ کو شامل کرنے کی حامی نہیں۔
تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اس مخمصے کا حل عدالتی عمل میں ہے اور نیتن یاہو کے خلاف بدعنوانی کے شبے اور سیاسی میدان سے ان کے اخراج سے متعلق کسی بھی پیش رفت میں نیت یاھو کا مستقبل خطرے میں پڑسکتا ہے۔
کیا نیتن یاہو کی گھڑیاں گنی جا چکی ہیں؟
عبرانی اخبار ‘ہارٹز’ کے سیاسی امور کے تجزیہ کار یوسی ورٹر نے لکھا، "جب نیتن یاھو کی گھڑی کا الارم بجنے والا ہے۔ جیسے اٹارنی جنرل کے ہاں ان کے خلاف انکوائری شروع ہوگی تو ان کے لیے سیاسی میدان میں آزادی کے ساتھ آگے بڑھنا اور مشکل ہوجائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ نیتن یاھو "اب لوگوں کی حمایت سے انتخابات کے تیسرے مرحلے تک پہنچنے کے لیے کوشش کریں گے۔”
گینٹزکی جانب سے نیتن یاھو کی دعوت کومسترد کرنے کے بعد نیتن یاہو نے مایوس کن قرار دیا۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ وہ صورت حال کو جلد اپنے حق میں کرلیں گے۔