لبنان کے دارالحکومت بیروت کے مغرب میں کئی سال پہلے مشہورزمانہ قتل عام ، جس میں تین ہزارسے زیادہ فلسطینی گزینوں کو بے دردی کے ساتھ شہید کیا گیا۔ پورے کیمپ کو ذبحہ خانہ میں تبدیل کردیا گیا۔
تاریخ میں فلسطینیوں کے اس قتل عام کو پناہ گزین کیمپ’صبرا و شاتیلا’ قتل عام قرار دیا جاتا ہے۔ کئی روز تک جاری رہنے والے اس وحشیانہ اور بربریت پرمبنی کارروائی کے دوران فلسطینیوں کو حاملہ خواتین اور ان کے بچوں کو بے دردی کے ساتھ ذبح کیا گیا۔ خواتین کی عصمت دری کے بھیانک مناظر ابھی تک زندہ بچ جانے والوں کے ذہنوں میں تازہ ہیں۔
مجرمانہ واردات کی یادیں
بھیانک قتل عام فلسطینی پناہ گزینوں کے ساتھ سلوک کی تبدیلی کا مظہرسمجھا جاتا ہےلیکن اس وحشیانہ قتل عام کے نتائج اس کے برعکس آئے۔
فلسطینی دانشور اور تجزیہ نگار یاسرعلی نے ‘قدس پریس’ کو صبرہ اور شاتیلا کے قتل عام کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آج لبنان میں فلسطینی پناہ گزینوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے ، اس نے صبرہ اور شاتیلا قتل عام کی یاد تازہ کردی ہے۔ اس وحشیانہ اقدام کا ذمہ دارسابق اسرائیلی وزیراعظم ایریل شیرون کو سمجھا جاتا ہے۔ اس کے نام منسوب ایک بیان کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ کہ "لبنان میں اب کوئی فلسطینی نہیں ہونا چاہئے،انہیں دوسرے ممالک کو میں بھیجنا چاہئے۔اردن فلسطینیوں کے لیے متبادل آبائی وطن ہے”۔
انہوں نے بتایا کہ اس قتل عام کے37 سال بعد فلسطینی پناہ گزینوں کو لبنان سے بے گھرکرنے کے خیال کو دہرایا گیا ہے لیکن انداز بدل گئےہیں۔
اس وقت فلسطینی پناہ گزینوں کے حوالے سے مختلف منظر نامے پیش کئے جارہے ہیں۔ ان منظرناموں کا تازہ ترین مطالعہ امریکا کے مشرق وسطیٰ وسطی کے لیے سیاسی ‘صدی کی ڈیل’ کی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔
فلسطینیوں کی جبری ھجرت
یاسر علی کے مطابق "صدی کی ڈیل” چار اہم امور پرمبنی ہے۔ پہلا مقبوضپ بیت المقدس، ، دوسرا یہودی بستیاں، حدود کا تعین اور چوتھا پناہ گزینوں کا مسئلہ ہے۔ پناہ گزینوں کا معاملہ فلسطینی کازکا بنیادی اور کلیدی معاملہ ہے۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ "لبنان سے فلسطینیوں کوبے گھر کرنے کا منصوبہ گذشتہ چالیس سالوں سے کسی نا کسی شکل میں جاری ہے۔ 1976ء کی خانہ جنگی کے دوران واضح ہے جس میں محاصرہ ‘تل زعتر’کا قتل عام الکرنتینا کا قتل عام اور پل پاشا’ قتل عام جیسے واقعات کے پیچھےفلسطینی پناہ گزینوں کو لبنان سے بے دخل کرنے کی مجرمانہ سوچ کار فرما تھی۔ سنہ 1985ء سے 1987ء تک لبنان میں جاری رہنے والی خانہ جنگی کے بعد جرمنی نے مشروط طورپر فلسطینی پناہ گزینوں کو اپنے ہاں آنے کی اجازت دی۔
فلسطینی دانشور کا کہنا ہےکہ لبنان میں فلسطینیوں پر پابندیاں عائد پابندی کا سلسلہ غیر منصفانہ اور ناجائز قوانین کا نتیجہ ہے۔ اس کی تازہ ترین شکل وہ ظالمانہ قانون ہے جس میں فلسطینی پناہ گزینوں کو عام نوعیت کے کام کاج سے اور مزدوری سے بھی محروم کیا گیا۔
حقیقت یہ ہے کہ لیبر قانون آخری دیوارتھی۔ یہ لبنان میں حکمران اتھارٹی کی طرف سے آنے والےکئی دھائیوں پرمبنی نسل پرستی طرزعمل کا نتیجہ ہے۔ یہ قانون اونٹ کی کمر کو توڑنے والا بھوسہ اور وہ قطرہ جس نے کپ کو بہایا دیا۔