فلسطینی قانون ساز کونسلکے اسپیکر عزیز دویک نے کہا ہے کہ وہ اور باقی فلسطینی قیدی قابض اسرائیل کی جیلوںمیں انتہائی سخت حالات میں زندگی گزارنے پرمجبور تھے مگر اس کے باوجود تمام قیدیوںکے حوصلے بلند تھے۔
الدویک نے الجزیرہ کےساتھ ایک انٹرویو میں کہاکہ قیدی 24 گھنٹے مکمل بھوکے رہتے ہیں۔ اس کے بعد انہیںایک قیدی کو ایک کم سن بچے کی خوراک کے بربر کھانا دیا جاتا ہے۔ اس میں روٹی کےچھوٹے ٹکڑے اور چاول جو تین یا چار چمچ کےبرابر ہوتےہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ میریرہائی سے 5 دن پہلے 35 سفید پھلیوں کے دانے پہنچے۔ ان کے ساتھ دیگر قیدیوں نے وہکھائے اور ہرایک کے حصے میں ساڑھے 3 پھلیاں ہی آئیں۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینیقیدی انسانی زندگی کے سب سے بنیادی اجزاء کی محرومی سے دوچار ہے۔ اسے تھکانے کے لیے دن بدن مسلسل دباؤ کا سامناکرنا پڑتا ہے،۔
الدویک نے کہا کہ سختحالات اور جان بوجھ کر غذائیت کی کمی کے نتیجے میں ہر قیدی کا اوسطاً 30 کلو گراموزن کم ہوچکا ہے۔ انہوں نے انسانی حقوق، بین الاقوامی اور صحت کی تمام تنظیموں سےاپیل کی کہ وہ قابض ریاست کی جیلوں میں قید فلسطینی قیدیوں کو مدد فراہم کریں۔ انکے عالمی طور پر مسلمہ حقوق بھی سلب کرلیےگئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ خبروکلاء اور نئے زیر حراست افراد کے ذریعے ان تک پہنچتی ہے۔
گذشتہ جمعرات کو اسرائیلیقابض حکام نے مغربی کنارے کے جنوب میں الخلیل شہر میں الظہریہ فوجی چوکی پر 9 ماہسے نظربند فلسطینی قانون ساز کونسل کے سربراہ کو رہا کر دیا تھا۔
فلسطینی اسیران کلب نے اس بات کی تصدیق کی کہ الدویک جنوبی اسرائیلکی نقب جیل میں صحت کی انتہائی مشکل سےدوچار رہے ہیں اور انہیں علاج اور خوراک کی شدید قلت کا سامنا رہا۔