صہیونی ریاست کے زندانوں میں ایک اور فلسطینی صہیونی جلادوں کے غیر انسانی برتائو کی بھینٹ چڑھ کر اپنی جان سے گذر گیا۔ 36 سلاہ فلسطینی اسیر سامی ابو دیاک کئی سال سے کینسر کے موذی مرض کا شکار ہونے کے ساتھ علاج اور طبی سہولیات سے مکمل طور پرمحروم تھا۔ صہیونی حکام نے اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کے لیے اسے چند روز قبل الرملہ نامی جیل اسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں اسے کسی قسم کی طبی مدد فراہم کی گئی اور وہ اسپتال میں بستر مرگ پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کرچل بسا۔
کلب برائے اسیران کی طرف سے جاری ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ صہیونی حکام ابو دیاک کے قتل کے ذمہ دار ہیں۔ ابو دیاک کی حالت تشویشناک ہونے کے باوجود نہ صرف اسے رہا نہیں کیا گیا گیا بلکہ اسپتال میں کسی قسم کی طبی معاونت فراہم نہیں کی گئی۔ کینسر کے شکار فلسطینی کو طبی امداد فراہم نہ کرکے صہیونی حکام نے مجرمانہ غفلت اور قیدی کو اذیتیں دینے کے سنگین جرم کا ارتکاب کیا ہے۔
خیال رہے کہ ابو ابو دیاک 2015ء سے اسرائیلی جیل میں کینسر کا شکار تھا مگر اسے کوئی خاطر خواہ طبی امداد فراہم نہیں کی گئی۔ کچھ عرصہ قبل اسے اسرائیل کے ‘سوروکا’ اسپتال منتقل کیا گیا جہاں یہ دعویٰ کیا گیا کہ اس کے معدے میں موجود کینسر کے السرکوتلف کردیا گیا ہے مگراسے کوئی آفاقہ نہیں ہوا۔ اس کی حالت بہ تدریج خراب ہوتی چلی گئی۔ آخری ایام میں اسے مصنوعی آکسیجن دی گئی اور کئی ہفتوں تک وینٹی لیٹر پررکھا گیا۔
اسیر ابو دیاک کو 17 جولائی 2002ء کو حراست میں لیا گیا اور اسے تین بار عمر قید اور 30 سال اضافی قید کی سزا سنائی گئی تھی۔انسانی حقوق کی تنظیموں نے ابو دیاک کے کینسر کے باعث حالت خراب ہونے پر رہا کرنے کی درخواست دی تھی مگر صہیونی عدالت اور حکام نے اسے رہا کرنے سے انکار کردیا تھا۔