‘الف لیلیٰ داستان’ قدیم تاریخی واقعات اور قصوں کے اعتبار سے بہت زیادہ پسند کی جانے والی کتاب کہلاتی ہے مگر فلسطین میں ایک دوشیزہ نے اس کتاب میں موجود کہانیوں کو غزہ کے مصیبت زدہ فلسطینیوں کے چہروں پر خوشیاں بکھیرنے کے لیے سنانے کا مشن شروع کیا ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق غزہ کی پٹی سے تعلق رکھنے والی نوجوان دو شیزہ عزہ ابو زاید فلسطینی بچوں کو جمع کرتی اور انہیں داستان الف لیلیٰ میں ‘شہر زاد’ کی کہانیاں سناتی ہے۔ وہ صرف قصہ گو ہی نہیں بلکہ وہ بچوں کو ان کہانیوں کے ذریعے حاصل ہونے والے سبق سکھاتی اور انہیں بتاتی ہے کہ شہرزاد نے کس طرح ایک سفاک شخص کا دل جیتا اور اپنی علمی قابلیت اور کہانی گوئی سے اس کے تشدد پسند مزاج کو تبدیل کر کے خواتین کے حوالے سے اس کے رویے کو تبدیل کیا۔ اس کے علاوہ وہ ان کہانیوں سے فلسطینی بچوں میں آزادی، بیداری، حصول علم اور ہر طرح کے ظلم کے خلاف اٹھنے کے جذبات بھی پیدا کرتی اور انہیں سکھاتی ہے۔
عزہ پیشے کے اعتبار سے ایک معلمہ ہے مگراس نے الف لیلیٰ کی سبق آموز کہانیاں بیان کرنے کا دائرہ پبلک مقامات موجود بچوں سےآگے بڑھ کر ریڈیو اورسوشل میڈیا پر بھی پھیلا دیا ہے۔ اسے ہمہ وقت غزہ کے سماج اور بچوں کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ 35 سالہ عزہ کو قصہ گوئی کا بچپن ہی سے شوق تھا۔ وہ نہ صرف کتابوں سے کہانیاں پڑھتی بلکہ بڑوں سے کہانیاں سنتی بھی تھی۔ وہ جو کہانی سنتی یاد کرلیتی۔ اب وہ وہی کہاںیاں بچوں کو سناتی ہے۔
غزہ میں بچوں کو سنائی جانے والی عزہ کی کہانیوں میں مہم جوئی کے قصے، سبق آموز داستانیں، فلسطینی تاریخ اور ثقافت کی ترویج واشاعت، بچوں کی تربیت اور ان کے کردار کو جلانے والے سبق آموز قصے شامل ہوتے ہیں۔
مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں نہ صرف کہانیوں کو پسند کرتی ہوں بلکہ مجھے بچوں سے بھی عشق کی حد تک محبت ہے۔ مجھے جہاں بھی بچے ملیں میں انہیں جمع کرلیتی اور کہانیاں سناتی ہوں۔ بچے عجائبات اور مہم جوئی کے قصے بہت غور اور دلچسپی سے سنتے ہیں۔
اس نے بتایا کہ کم عمری میں اس نے الف لیلیٰ کی پوری داستان بالخصوص شہرزاد کی شخصیت، اس کی قربانیوں، شہر یار کی بیویوں پر تشدد اور انہیں قتل کرنے کی کہانیاں یاد کر چکی تھیں۔
اس نے بتایا کہ داستان الف لیلیٰ میں شہرزاد نامی ایک بہادر لڑکی نے ظالم بادشاہ شہریار کے ساتھ شادی کی تاکہ وہ کہانی کے ذریعے اس کی سوچ میں تبدیلی لائے بادشاہ نے شادی کے بعد اس کی کہانیاں سننا شروع کیں۔ اس طرح شہر یار اس کے قتل کو موخر کرتا رہا۔ اس کی کہانی بڑھتی گئی اورشہر یار کے دل سے تشدد کی سوچ کم ہوتی چلی گئی۔
خیال رہے کہ غزہ کی پٹی کے لاکھوں بچے 2007ء سے اسرائیلی ریاست کے غاصبانہ معاشی تسلط کے نیچے انتہائی کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اس پرمستزاد صہیونی ریاست کی غزہ کی پٹی پر مسلط کی گئی جنگیں ہیں جنہوں نے غزہ کی پٹی کے بچوں پر گہرے منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ غزہ کی مجموعی صورت حال نے بچوں کو نفسیاتی اور طبی طور پر بری طرح متاثر کیا ہے۔