امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے منگل 28 جنوری کو مشرق وسطیٰ کے لیے ایک ایسا نام نہاد امن منصوبہ جاری کیا جس پرعالمی برادری کی طرف سے سخت رد عمل ظاہر کیا جا رہا ہے وہیں یہ نام نہاد منصوبہ صدی کی ڈیل خوب طنزو مزاح بنا ہوا ہے۔
سوشل میڈیا پر سماجی کارکنوں نے فلسطینی ریاست کا جو مجوزہ نقشہ جاری کیا گیا ہے اسے ‘سوئس پنیر’ کا ایک ٹکڑا قرار دیا ہے۔ بعض نے اسے کان کا درمیانہ حصہ یا معدے کا ایک ٹکڑا قرار دیا ہے۔
بکھرے اجزاء
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے گھٹیا دماغ اور ذہن سے فلسطینیوں کے لیے جو منصوبہ تیار کیا ہے سوشل میڈیا پر اس کا مذاق بننا تھا۔ یہ ریاست بکھرے ٹکڑوں پر مشتمل دکھائی گئی ہے۔ ٹکڑوں کا آپس میں کوئی زمینی جغرافیائی ربط نہیں۔
امریکی صدر کے تیار کردہ نقشے میں مقبوضہ بیت المقدس، وادی اردن اور بحر مردار کو اسرائیل کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔ یہ تین علاقے الگ کیے جانے کے بعد فلسطینی ریاست کی مثال ایسےجسم کی ہےجس کا نہ سر اور دھڑ ، نہ ہاتھ اور نہ پائوں۔ تمام یہودی کالونیوں کو غرب اردن، سنہ 1948ء کے مقبوضہ فلسطینی اور دوسرے فلسطینی علاقوں کے ساتھ مربوط کرکے اسرائیل کو متحد کیا گیا ہے۔
امریکی صدر کے مجوزہ منصوبے کے 42 فی صد علاقے کو اسرائیل کے حوالے کیا گیا ہے۔ غرب اردن کے تمام ایسے علاقے جو قدرتی وسائل سے مالا مال ہوں، زراعت کا مرکز ہوں، پانی اور دیگر وسائل سے مالا مال ہوں ایسے مقامات بھی فلسطینیوں سے چھین لیے گئے ہیں۔
اسی طرح فلسطینی شہروں کے درمیان سڑکوں پر بھی اسرائیل کا قبضہ تسلیم کیا گیا ہے۔ اگر مزید سڑکیں بھی تعمیر کی جاتی ہیں تو یہ امریقینی ہے کہ اسرائیل مزید فلسطینی اراضی ہڑپ کرے گا۔
غزہ اور غرب اردن کے سرسبزو شاداب علاقے، جنوبی غزہ کی پٹی میں میلوں پر پھیلے علاقوں میں صنعتی زون کے قیام کی شکل میں فلسطینیوں کو لبھانے کی کوشش کی گیی ہے مگر غرب اردن کے علاقوں میں 15 صنعتی کالونیوں کو بھی اسرائیل میں شامل کیا گیا ہے۔
اسی طرح مشرقی غزہ کو مغربی الخلیل سے ایک سرنگ کے ذریعے ملانے کی تجویز دی گئی ہےمگر یہ سرنگ بھی اسرائیل کی تحویل میں ہوگی۔ مشرقی بیت المقدس، بحر مردار اور وادی اردن اور دیوار فاصل کے عقب میں تمام علاقے پہلے صہیونی ریاست میں شامل کیےگئے ہیں۔
خالی ٹکڑے فلسطینیوں کے لیے
اسرائیل میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے’بتسلیم’ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگر ہم امریکی صدر ٹرمپ کے فلسطینی ریاست کے لیے جاری کردہ نقشے کو’سوئس پنیر’ کے ایک ٹکڑے سے تشبیہ دیں تو کوئی حیرت کی بات نہیں ہوگی۔ پنیر میں کچھ جگہیں خالی ہوتی ہیں اور باقی پنیر ہوتا ہے۔ امریکی صدر کے فارمولے کو دیکھیں تو اس کے مطابق ٹرمپ نے پنیر کا خالص حصہ اسرائیل کو اور خالی ٹکڑے فلسطینیوں کو دینے کا منصوبہ پیش کیا ہے۔
انسانی حقوق گروپ کے مطابق اسرائیلی ریاست کاقبضہ ختم کرانے کے کئی طریقے ہیں مگر واحد آئینی متبادل راستہ انسانی حقوق اور مساوات ہے۔ امریکا کے منصوبے کو اس لیے بھی قبول نہیں کیا جا سکتا ہے بلکہ اس کے نتیجے میں انسانی حقوق کو بری طرح پامال کیا گیا ہے۔ اسرائیل کا 52 سالہ ریکارڈ انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں پر مشتمل ہے۔
ٹرمپ کے منصوبے کے تحت جزیرہ نما النقب کے مغربی حصے کو فلسطینیوں کے لیے مختص کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے مگر اسے غرب اردن میں شامل نہیں کیا جائے گا تاہم اس کی مصر کے ساتھ سرحدوں کا کوئی تعین نہیں کیا گیا۔
لبنان کی سلامتی کے لیے خطرہ
لبنان کےعسکری امور کے تجزیہ نگار امین حطیط نے ‘ٹویٹر’ پر پوسٹ کردہ ایک بیان میں کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ بالخصوص فلسطین کے لیے جو نقشہ تجویز کیا ہے وہ نہ صرف فلسطین بلکہ لبنان کی سلامتی کے لیے بھی خطرہ ہے۔
حطیط کا کہنا ہے کہ جنگ بندی لائن اور امریکی صدر ٹرمپ کے نقشے میں کھنچی گئی سرحدوں کی لکریں الگ الگ ہیں۔ گویا امریکا نے لبنان اور فلسطین کے درمیان بین الاقوامی سرحدوں کو بھی پامال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ سب کچھ اسرائیلی ریاست کےدفاع کے لیے کیا جا رہا ہے۔
حطیط کا مزید کہنا ہے کہ امریکی صدر کے تجویز کردہ نقشے میں لبنان کی بین الاقوامی سرحد کو بھی تسلیم نہیں کیا گیا۔ امریکی صدرنے لبنان کی بری سرحد کو جو کہ عارضی سرحد ہے کو حتمی قراردینے کی کوشش کررہا ہے۔
امریکا کے فلسطین کے مجوزہ نقشے کے ساتھ ساتھ فلسطینی پناہ گزینوں کے بارے میں بھی وضاحت کی گئی ہے۔ فلسطینی مہاجرین کےباب کو تین آپشنز کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ پہلا یہ کہ فلسطینیوں کو دوسرے ممالک میں جہاں ہیں وہاں پر آباد کردیا جائے۔ یا مجوزہ فلسطینی ریاست میں واپس آئیں۔ مگر ان کی فلسطینی ریاست میں آمد اسرائیلی شرائط کے تحت ہوگی۔ اس طرح اسرائیل سالانہ 5000 اور 10 سال میں 50 ہزارفلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی کی تجویز پیش کرے گا۔
بحر متوسط سے دریائے اردن تک سب فلسطین
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فلسطینی ریاست کے لیے جو نقشہ جاری کیا گیا ہے وہ تاریخ کا بدترین مذاق ہے۔ مگر امریکیوں اور اسرائیلیوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ فلسطین کی سرحدیں ایک طرف دریائے اردن سے ملتی ہیں اور دوسری طرف بحر متوسط تک پھیلی ہوئی ہیں۔ اس میں صہیونی ریاست کا کوئی تصور نہیں۔ یہی فلسطین کا جغرافیائی نقشہ، یہی اس کی شناخت اور یہی اس کی پہچان ہے۔ فلسطین ایک مسلمان اور عرب ریاست ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے مبصرین کا کہنا تھا کہ امریکی صدر کا فلسطین کے لیے نقشہ ٹرمپ کے’مسخرے پن’ کا ثبوت ہے۔ کیا کوئی ایسا ملک بھی ہوسکتا ہے جس کی سرحدیں نہ ہوں، اس کی کوئی گذرگاہیں نہ ہوں اور کئی چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں پر مشتمل ہو۔
خالد الخطیب کا کہنا ہے کہ ہم نے جس فلسطین کے بارے میں اپنے آبائو اجداد سے سنا ہے وہ 27 ہزار مربع میل پر مشتمل ہے۔ اس فلسطین کی ایک طرف سرحدیں بحر متوسط کے ساتھ ملتی ہیں اور دوسری طرف اردن سے دریائے اردن تک پھیلی ہوئی ہیں۔ فلسطین کا شمالی علاقہ راس الناقورہ اور جنوب میں غزہ کا رفح کا شہر واقع ہے۔
اشرف ابو حطب پیشے کے اعتبار سے ایک استاد ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ فلسطین صرف ایک زمین کے ٹکڑے کا نام نہیں بلکہ ہمارے ایمان، عقیدے، نظریئے، اصولوں، تعلیم اور نسل در نسل اور سینہ بہ سینہ چلنے والی سوچ کا نام ہے۔