آج سے 63 سال قبل شام کی حکومت نے دارالحکومت دمشق میں فلسطینی پناہ گزینوں کی عارضی آباد کاری کے لیے کئی کیمپ قائم کرنے کی اجازت دی۔ انہی میں ایک کیمپ کو ‘یرموک’ کیمپ کا نام دیا گیا۔ یہ کیمپ شام میں فلسطینی پناہ گزینوں کا سب بڑا اقامتی مرکز قرار دیا جاتا ہے اور اسے فلسطینی پناہ گزینوں کا دارالحکومت قرار دیا جاتا رہا ہے۔
بیرون ملک فلسطینی پناہ گزین کیمپوں میں یرموک پناہ گزین کیمپ اس لیے بھی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ فلسطین کے ابتدائی فدائین، مجاھدین اور مزاحمت کار یہاں ہی پروان چڑھے۔ یہ کیمپ دمشق شہر سے آٹھ کلو میٹر کی مسافت پر ہے اوراس کا کل رقبہ 2 اعشاریہ 11 مربع کلو میٹر ہے۔ یہاں پر فلسطینیوں کی آمد ورفت کا سلسلہ سنہ 2011ء تک جاری رہا۔ اس کیمپ میں نہ صرف فلسطینی پناہ گزین آباد ہیں بلکہ بڑی تعداد میں شامی شہری بھی رہائش پذیر ہیں۔ یہاں پر فلسطینی مہاجرین کی تعداد 2 لاکھ 20 ہزار اور شامیوں کی تعداد پانچ لاکھ ہے۔
یرموک پناہ گزین کیمپ کو بیرون ملک قابض صہیونی ریاست کے خلاف مزاحمت کا بیس کیمپ قرار دیا جاتا ہے۔ سنہ 1982ء میں سابق اسرائیلی آرمی چیف ارئیل شیرون جو بعد میں صہیونی ریاست کا وزیراعظم بنا نے لبنان پر چڑھائی کے وقت یرموک پناہ گزین کیمپ کی بھی اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دی تھی۔
چھ جون 2011ء کو اسرائیلی فوج نے یرموک پناہ گزین کیمپ پر بمباری کی جس کے نتیجے میں کم سے کم 21 فلسطینی شہید ہوگئے۔ اس طرح اس کیمپ کے فلسطینی مکینوں کوایک بار پھر نکبہ جیسی آزمائش سے گذرنا پڑا۔ اس کے بعد 15 مئی 2011ء کو فلسطینیوں کا ایک گروپ وادی گولان میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگیا جہاں پر اس کی اسرائیلی فوج کےساتھ جھڑپ ہوئی اور 4 فلسطینی موقع پر شہید ہوگئے۔
معاشی اعتبار سے بھی یرموک پناہ گزین کیمپ اہمیت کا حامل رہا ہے۔ اس کے چار بڑے بازاروں کا دمشق کے بازاروں کےساتھ مقابلہ رہا ہے اور اسے جنوبی دمشق کا داخلی دروازہ قرار دیا جاتا ہے۔
یہ کیمپ نہ صرف ایک برائے نام قیام گاہ ہے بلکہ فلسطینیوں کا ایک ثقافتی، تہذیبی، سیاسی، آرٹ اور فلسطینی مزاحمتی تنظیموں کی سرگرمیوں کا بھی بیس کیمپ رہا ہے۔ اس طرح یہاں پر ایک ہی وقت میں کئی رنگ دیکھنے کو ملتے ہیں۔
شام کا بحران اور یرموک کیمپ
سنہ 2011ء میں شام میں حکومت کے خلاف ایک مسلح بغاوت شروع ہوئی تو فلسطینیوں نے پہلے تو خود کو اس تحریک میں غیر جانب دار رکھا۔ مگر بعض حلقوں نے اس کیمپ کو غیر جانب دار نہ رہنے دیا اور یرموک کیمپ کو بھی اس آگ میں جھونک دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ بغاوت کی تحریک شروع ہونے کے بعد یہاں پر جو تباہی اور بربادی دیکھنے کو ملی اس نے سنہ 1948ء کی فلسطینی نکبہ کی یاد تازہ کردی۔
سنہ 2012ء کے آخر میں جنگی طیاروں نے یرموک پناہ گزین کیمپ کی مرکزی جامع مسجد جامع الحسینی پر بمباری کی جس کے نتیجےدسیوں افراد شہید ہوگئے۔ اس کے اگلے روز کیمپ کی 80 فی صد آبادی کو وہاں سے نقل مکانی کرنا پڑی۔ یہ نقل مکانی بھی 1948ء کی ھجرت سے کم صبر آزما نہ تھی۔
سنہ 2013ء کے بعد سات سال کے عرصے میں یرموک پناہ گزین کیمپ کے مکینوں کی مشکلات میں مزید کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ اس کیمپ کا طویل محاصرہ کیا گیا جس نے وہاں پر بھوک اور موت کو تباہی پھیلانے کا موقع دیا۔ کیمپ میں رہ جانے والے 50 ہزار فلسطینیوں کے پاس کھانے کو کچھ نہ بچا اور وہ کئی ماہ تک گھاس کھا کر زندگی بچانے کی کوشش کرتے رہے۔ شام ۔ فلسطین ایکشن گروپ کی رپورٹ کے مطابق شامی فوج کی جانب سے کی گئی ناکہ بندی کے نتیجے میں یرموک کیمپ میں 184 افراد زندگی کی بازی ہار گئے۔
سنہ 2018ء کے وسط میں روس کی وساطت سے کیمپ میں موجود باقی فلسطینیوں کو بھی وہاں سے نقل مکانی کی اجازت دی گئی۔ وہاں سے ھجرت کرنےوالوں کو حلب، ادلب اور دیگر شہروں میں قائم فلسطینی پناہ گزین کیمپوں میں لایا گیا۔
انتظامی منصوبہ
کئی سال کے بعد شامی رجیم کی کیمپ پرعمل داری کی بحالی، فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی اور کیمپ کی تعمیر نو کی خبروں کے ساتھ ساتھ سال 2019ء کے آغاز میں ماہرین نے انکشاف کیا کہ شامی حکومت اس کیمپ کا ایک نیا انتظامی ڈھانچہ تیار کرنا چاہتی ہے۔ اس تبدیلی میں کیمپ میں آبادی اور رئیل اسٹیٹ کے شعبے کی تبدیلی بھی شامل ہے۔ اس کی سڑکیں، گلیاں اور محلے نئے انداز میں تیار کیے جائیں گے۔
جون 2020ء میں دمشق کے گورنر نےیرموک پناہ گزین کیمپ میں شاہراہ 105 کی منظوری دی۔ اس سڑک کے منصوبے سے کیمپ تین حصوں میں بٹ کر رہ گیا۔ یہ منصوبہ سنہ 2004ء کے وضع کردہ پلان کے برعکس تھا۔ نئے پلان کے تحت یرموک پناہ گزین کی تاریخی حیثیت ختم کرکے اسے ایک کیمپ کے بجائےشام کی مقامی ہائوسنگ کالونی کا درجہ دینے کی تیاری کی جا رہی ہے۔
اس نئے پلان میں فلسطینی پناہ گزینوں کے تباہ شدہ مکانات کی تعمیر نو کا کوئی منصوبہ نہیں اور کیمپ میں فلسطینیوںکی شناخت سمجھی جانے والی لوبیہ، صفد اور المغاربہ کالونیوں کا نقشہ تبدیل کیا جا رہا ہے۔ اس پروگرام کے تحت فلسطینیوں کو کیمپ کا صرف 40فی صد رقبہ دیا جائے گا۔ جب کہ نقل مکانی کرنے والے 80 فی صد فلسطینیوں کو ایسی حالت میں واپس آنے کی اجازت دی گئی ہے کہ ان کے پاس اس کیمپ میں سر چھپانے کے لیے جگہ نہیں بچی۔ اس طرح فلسطینی پناہ گزین یرموک پناہ گزین کیمپ میں ایک نئے المیے سے دوچار ہیں۔