نام نہاد صہیونی ریاست کے سمندر پار دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ادارے ‘موساد’ اور اندرون ملک ٹارگٹ کلنگ جیسے جرائم میں قصور وار قرار دیے گئے ‘شاباک’ پر عرصہ دراز سے فلسطینی اور دوسرے مخالف شخصیات کو قتل کرنے کا الزام کیا جاتا رہا ہے۔
فلسطینیوں اور دوسری صہیونی مخالف شخصیات کو شہید کرنے کا سلسلہ سنہ 1948ء میں اسرائیلی ریاست کے قیام سے قبل سے جاری ہے اور آج تک یہ سلسلہ جاری وساری ہے۔
صہیونی دہشت گرد مافیا نے النکبہ سے قبل فلسطین کی چیدہ چیدہ شخصیات کو ٹارگٹ کے ذریعے شہید کیے جانے کا مجرمانہ سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ اس کے بعد تنظیم آزادی فلسطین کی شخصیات، فلسطین کی مذہبی، سیاسی اور مزاحمتی قوتوں کے رہ نمائوں کے قتل کا سلسلہ جاری رہا۔ اس مذموم ہتھکنڈے کو سند جواز فراہم کرنے کے لیے صہیونی دہشت گرد افواج نے ہمیشہ ‘سیکیورٹی وجوہات’ کا بہانہ رچایا۔
صہیونی جرائم پیشہ عناصر فلسطینی سیاسی اور مزاحمتی رہ نمائوں کے ساتھ فلسطینی سائنسدانوں، علما، اندرون اور بیرون ملک فلسطینیوں کے لیے آواز بلند کرنے والے رہ نما بھی اس ہتھکنڈے کا نشانہ بنے۔ صہیونی دشمن کی طرف سے ہمیشہ یہ کہا جاتا کہ جن لوگوں کو شہید کیا گیا ہے ان کا زندہ رہنا صہیونی پروگرام کی سلامتی اور اس کی بقا کے لیے خطرناک ہے۔
صہیونی دشمن جہاں بہت سے رہ نمائوں کو شہید کرنے میں کامیاب رہا وہیں بہت سے ایسے آپریشنز بھی ہیں جو ناکام رہے ہیں۔ ان میں نمایاں واقعہ حماس کے سیاسی شعبے کے سابق سربراہ خالد مشعل کو زہر دے کر شہید کرنے کا ناکام واقعہ ہے۔ وہ اردن میں تھے جب انہیں ‘موساد’ کے ایجنٹوں نے کھانے میں زہر دے کر شہید کرنے کی مذموم اور بزدلانہ کوشش کی تھی۔ سنہ 1997ء میں کی گئی کارروائی ناکام رہی۔ اس کے علاوہ القسام بریگیڈ کے کمانڈر محمد الضیف کو کئی بار قاتلانہ حملوں کا نشانہ بنایا تاہم وہ محفوظ رہے۔ اسماعیل ھنیہ، محمود الزھار اور حماس کی صف اول کی دوسری قیادت کو غزہ کی پٹی پر مسلط کی گئی تین جنگجوں میں شہید کرنے کی کوشش کی گئی مگر وہ محفوظ رہے۔
ٹارگٹ کلنگ کے اہداف
صہیونی دشمن بہت پہلے سے محاذ آرائی کو میدان جنگ میں لے جانے کی پالیسی پر عمل پیرا رہا ہے۔ اس مذموم مقصد کے دوران اسرائیل نے ہمیشہ نمایاں قومی شخصیات کو شہید کرنے کی مذموم اور بزدلانہ کوشش کی گئی۔ اس کے مذہبی اور تاریخی پہلو بیان کیے گئے۔
اسرائیل کو اس پر فخر ہے کہ وہ اپنے مخالفین کو پیشگی حملوں میں انہیں ختم کرنے کے اصول پر قائم ہے اور اس کے لیے وہ سیکیورٹی اور سلامتی کے خطرات کا بہانہ کرتا رہا ہے۔ موساد اور شاباک کو اندرون اور بیرون ملک فلسطینی اور دوسرے سرکردہ مسلمان رہ نمائوں کو شہید کرنے کا ٹاسک دیا گیا۔
تجزیہ نگار ناجی البطہ کا کہنا ہے کہ صہیونی ریاست کا سیکیورٹی اصول ایسی کرشمانی قومی شخصیات کو شہید کرنے کے اصول پر قائم ہے جنہیں صہیونی دشمن اپنے لیے خطرہ قرار دیتا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے حماس کے الشیخ احمد یاسین اور عبدالعزیز الرنتیسی کو شہید کیا۔ اسلامی جہاد کی سرکردہ قیادت کو ٹارگٹ کلنگ میں مارا گیا۔ تحریک فتح کے ابو ایاد اور ابو جہاد کو قتل کیا گیا اور عوامی محاذ کے ابو علی مصطفیٰ اور دوسرے فلسطینی گروپوں کے رہ نمائوں کو بے دردی کے ساتھ ٹارگٹ کلنگ میں قتل کیا جاتا رہا۔
ایسی فلسطینی اور غیر فلسطینی شخصیات جو فلسطینیوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کی جسارت کرتے ہیں انہیں صہیونی ریاست کے لیے سیکیورٹی ریسک قراردے کر شہید کیاجاتا رہا ہے۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
اس ہتھکنڈے کا سب سے بڑا مقصد اسرائیل کے جنگی جرائم پر آواز بلند کرنے والی آوازوں کو خاموش کرنا اور فلسطینیوں کو ان کی قیادت سے محروم کرنا ہے۔ صہیونی دشمن جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے مخالفین کی نشاندہی کرکے انہیں شہید کرنے کی مجرمانہ پالیسی پرعمل پیرا ہے۔
تجزیہ نگار محمد لافی کا کہنا ہے کہ مخالف شخصیات کو براہ راست ٹارگٹ کلنگ کی کارروائیوں میں قتل کرنے کا طرز عمل اسرائیل کے ساتھ امریکا اور روس کے ہاں بھی دیکھا گیا۔
انہوں نے کہا کہ موساد نے ماورائے عدالت قتل کی مکروہ روایت کو امریکا کے بعد سے سے زیادہ استعمال کیا۔ بدقسمتی سے پوری دنیا میں پھیلی صہیونی اور یہودی لابی موساد کو کسی قسم کی قانونی گرفت سے بچانے کے لیے فوری حرکت میں آجاتی ہے اور موساد اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔
سرکردہ رہنمائوں کی ٹارگٹ کلنگ
فلسطین کی نمائندہ مذہبی، سیاسی اور مزاحمتی قیادت صہیونی ریاست کا خاص نشانہ رہی۔ لڑائی کے دوران اور اس کےعلاوہ امن کےایام میں بھی فلسطینی رہ نمائوں پر حملے کیے جاتے رہے۔ صہیونی ریاست کے اس مجرمانہ طرزعمل کو اجاگر کرنے کے لیے فلسطینی کارٹونسٹوں ناجی العلی اور قلم کار غسان کنفانی نے بھی علم وفن کے ذریعے بھی اس کا اظہار کیا۔
سنہ 2012ء کو اسرائیل نے غزہ کی پٹی میں القسام بریگیڈ کے کمانڈر احمد الجعبری کو ایک بزدلانہہ فضائی حملے میں شہید کیا۔
اس سے قبل فلسطین میں تحریک انتفاضہ کے دوران فلسطینیوں کی نمائندہ شخصیات جن میں ابو علی مصطفیٰ ، الشیخ احمد یاسین، ڈاکٹر عبدالعزیز الرنتیسی، جمال منصور، جمال سلیم اور دیگر کو شہید کیا گیا۔ اس کے علاوہ محمد الضیف، اسماعیل ھنیہ اور محمود الزھار کو شہید کرنے کی ناکام کوششیں کی گئیں۔
تجزیہ نگار لافی کا کہنا ہے کہ حماس رہ نما حسن یوسف کو بھی متعدد بار شہید کرنے کی کوشش کی گئی۔ انہیں بدنام کرنے اور ان کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے مکروہ حربے بھی استعمال کیے گئے۔ انہیں دبائو میں لانے کے لیے زیادہ سے زیادہ جیل میں پابند سلاسل رکھنے کی پالیسی اپنائی گئی۔
ان کےعلاوہ قابض صہیونی ریاست کے سیکیورٹی اداروں نے کمالین، ابو یوس النجار، یاسین، الشقاقی، الرنتیسی اور دیگر مزاحمتی رہ نمائوں کو راستے سے ہٹاٰیا گیا۔