رواں سال اگست کے بعد مراکش اسرائیل کو تسلیم کرنے اور صہیونی ریاست کے ساتھ سفارتی تعلقات کے قیام کا اعلان کرنے والا چوتھا عرب ملک ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی طرف سے اسرائیل کو عرب ملکوں کے قریب لانے اور ان کے ساتھ اسرائیل کے معاہدے کرانے کی مہم جاری ہے۔ یہ مہم ڈرامائی انداز میں آگے بڑھ رہی ہے۔ اس سے قبل متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان اور اب مراکش اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بعد صہیونی ریاست کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔
جمعرات کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹویٹر پر ایک ٹویٹ میں کہا کہ مراکش نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے ساتھ صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات استوار کرنے سے اتفاق کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے مراکش کے فرنروا شاہ محمد ششم سے ٹیلیفون پربات چیت ہوئی ہے۔ انہوں نے اسرائیل کے ساتھ 1994ء سے قلبل والی صورت حال واپس کرنے اور اسرائیل کو تسلیم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ ساتھ ہی ٹرمپ نے لکھا کہ امریکا نے متنازع علاقے مغربی صحارا پر مراکش کی خود مختاری تسلیم کر لی ہے۔
کل جمعہ کے روز مراکشی وزیرخارجہ ناصر بوریطہ نے کہا کہ یہ درست ہے کہ رباط نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ مراکش اسرائیل کے ساتھ رابطہ چینل کھولنا چاہتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مراکشی فرمانروا شاہ محمد ششم نے فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس کے ساتھ ٹیلیفون پر بات چیت کی ہے اور تازہ پیش رفت سے انہیں آگاہ کیا ہے۔
وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ مراکش کا قضیہ فلسطین کے حوالے سے اپنا ایک خاص اور اصولی موقف رکھتا ہے جس میں کی بنیاد عرب ۔ اسرائیل تنازع کے حل سے ہے۔ مراکش نے ہمیشہ مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن کے قیام کے لیے مثبت اور تعمیری سوچ کو آگے بڑھایا ہے۔
بوریطہ کا مزید کہنا تھا کہ شاہ محمد ششم نے صدر محمود عباس سے ٹیلیفون پر بات چیت میں تنازع فلسطین کے دو ریاستی حل، تمام مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے اور القدس کی اسلامی اور عرب شناخت برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ دوسرے مذاہب کے لیے اسے کھلا رکھنے کی حمایت کرتا ہے۔ انہوں نے صدر محمود عباس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا فیصلہ فلسطینی قوم کے حقوق اور قضیہ فلسطین ک قیمت پر نہیں کیا گیا۔
اسرائیل سے قربت خطے میں امن مساعی کو آگے بڑھانے کی کاوششوں کا تسلسل ہے۔
دوسری طرف مراکش میں عوامی اور سیاسی حلقوں کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے اعلان پر سخت رد عمل سامنے آیا ہے۔
بلیک میلنگ
مراکش کے ایک سینیر تجزیہ نگار اور انسانی حقوق کے کارکن خالد البکار نے مراکشی حکومت کی طرف سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے اعلان کو مغربی صحارا پرامریکی موقف کے ساتھ جوڑا۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر اپنے تحریر بیان میں کہا کہ امریکا نے مراکش کو بلیک میل کیا ہے اور رباط صہیونی ریاست اور امریکا کے ہاتھوں بلیک میل ہوئی ہے۔ یہ کوئی سیاسی یا سفارتی کامیابی نہیں بلکہ امریکا کی صریح بلیک میلنگ ہے جس کا مقصد مغربی صحارا پر مراکش کی بالادستی تسلیم کرنے کی آڑ میں رباط کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے پرمجبور کرنا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ مراکشی شاہی دیوان کی طرف سے شاہ محمد ششم کے حوالے سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بیان پر عوام میں سخت غم وغصہ کی فضا پائی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عوام شاہ محمد ششم کے فلسطینی صدر محمود عباس سے ٹیلیفون پر بات چیت کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکا نے اپنے حواریوں کے ساتھ مل کر حالات کو گڈ مڈ کرنے کی مذموم کوشش کی ہے۔
مراکشی آبزر ویٹری برائے انسانی حقوق کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ مراکش کی عوام اور حکمران الگ الگ سمتوں میں چل رہے ہیں۔ آبزر ویٹری کے سربراہ احمد ویحان نے کہا کہ مراکش کی تمام عوامی قوتیں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حکومتی اعلان کو مسترد کرچکی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مراکش کی حکومت نے مغربی صحارا کو امریکا کی جانب سے تسلیم کرانے کے بعد مراکش کو القدس اور فلسطین کے ساتھ سودے بازی پر مجبور کیا ہے۔
احمد ویحان نے کہا کہ مراکش کا امارات اور بحرین کے نقشے قدم پر چلنا سراسر گھاٹے اور خسارے کا سودا ہے۔