نام نہاد اسرائیلی ریاستکے کے قومی سلامتی کے انتہا پسند وزیر’ایتمار بین گویر‘ نے فلسطینی قیدیوں کو مزیدکھانا دینے کے بجائے سر میں گولی مار کر موت کے گھاٹ اتارنے کا مطالبہ کیا ہے۔انہوں نے اس سے قبل جیلوں میں قیدیوں کی مزید گنجائش پیدا کرنے کے لیے پہلے موجودقیدیوں کو سزائےموت دینے کا مطالبہ کیا تھا۔
فلسطینی خبر رساں ایجنسی’وفا‘ کی رپورٹ کے مطابق بین گویر نے کہا کہ ’’قیدیوں کو زیادہ کھانا دینے کےبجائے ان کے سروں میں گولی مار دی جانی چاہیے‘‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ”یہمیری بدقسمتی ہے کہ مجھے فلسطینی قیدیوں کے لیے پھلوں کی ٹوکری کے معاملے سے نمٹناپڑا۔ ہمیں کنیسیٹ میں’ہوتزما یہودیت‘ قانون پر تیسری رائے شماری کرکے اس بل کومنظور کرنا چاہیے۔تب تک ہم انہیں (قیدیوںکو) صرف زندہ رہنے کے لیے تھوڑا سا کھانادیں گے‘‘۔
دوسری جانب فلسطینی تنظیم اسلامی جہاد نے بین گویر کے بیانات کی سخت ترینالفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے ایک "نازی مجرم” قرار دیا۔
گذشتہ اپریل میں بین گویرنے فلسطینی قیدیوں پر سزائے موت کا اطلاق کرنے کا مطالبہ کیا تھا تاکہ جیلوں میںگنجائش سے زیادہ افراد کے مسئلے کا حل نکالا جا سکے۔
غزہ پر جنگ کے دوران کنیسٹکی قومی سلامتی کے امور کی کمیٹی نے فلسطینی قیدیوں کی سزائے موت کے قانون کیمنظوری دی، جس میں کہا گیا ہے کہ "جو بھی قوم پرستانہ مقاصد کے لیے اسرائیلیوںکے قتل کا ارتکاب کرتا ہے اسے سزائے موت دی جائے گی‘‘۔
بل میں شامل ہے”کوئی بھی شخص جو خلاف ورزیوں میں ملوث ثابت ہو، ان کی منصوبہ بندی کرے، یالوگوں کو ان کے ارتکاب پر زور دے۔ وہ بھی سزائے موت کا مستحق ہے”۔
7 اکتوبر2023 سے اسرائیلی جیلوں میں قیدیوں کو سخت تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے خاصطور پر بھوک سے مرنے کی پالیسی، جان بوجھ کر طبی غفل جیسے ہتھکنڈے استعمال کیےجاتے رہے ہیں جو پھانسی کا ایک اور پہلو ہے۔