جمعه 15/نوامبر/2024

اسرائیل غرب اردن میں آبادکاروں کے لیے 3300 مکانات تعمیر کرے گا

ہفتہ 24-فروری-2024

اسرائیل نے مقبوضہ مغربی کنارے میں مزید دوسرے ملکوں سے لا کر مزید یہودیوں کو بسانے کے لیے 3300 نئے گھر بنا کر دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ اعلان اسرائیل کے دائیں بازو کے وزیر بذالیل سموٹریچ نے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم ‘ایکس’ پر کیا ہے۔

اس فیصلے کی اہمیت صرف اس لیے غیر معمولی نہیں ہے کہ یہ ناجائز یہودی بستیوں ایک نیا ضافہ ہو گا، بلکہ اس کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ ایک جانب بین الاقوامی عدالت انصاف نے ان دنوں 75 سال بعد فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضے کے قانونی یا غیر قانونی ہونے کا جائزہ لینا شروع کیا ہے اور دوسری جانب اسرائیل اس عدالت انصاف کے مقابلے میں بر سر عام یہ اعلان کر رہا ہے کہ اسرائیل کو پہنچائی جانے والی کوئی تکلیف اور نقصان ہمارے قبضے کو ختم نہیں کر سکتا بلکہ یہ قبضہ مزید پکا کیا جائے گا۔

اسرائیل کی بین الاقوامی اداروں کے لیے اس دیدہ دلیری اور ان کے ساتھ عدم تعاون کی یہ انوکھی مثال ہے کہ اس کے باوجود اسرائیل کے خلاف اقوام متحدہ کی طرف سے کوئی پابندی لگائے جانے کا امکان ہے نہ ان ملکوں کی طرف سے جو آئے روز مختلف ملکوں پر پابندیاں لگاتے رہتے ہیں۔

غزہ میں اب تک 30 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید کرنے، ان میں سے کئی کی قبریں تک اکھاڑ دینے اور 23 لاکھ کے قریب فلسطینی کے گھروں کو غزہ میں مسلسل بمباری سے مسمار کر دینے کے دینے عمل کے دوران یہودی آباد کاری کے لیے مزید 3300 سے زائد مکانات بنانا اہم ہے۔

اسرائیلی کے انتہائی کٹر قسم کے یہودی انتہا پسند مانے جانے والے وزیر خزانہ نے یہ اعلان جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب کیا ہے۔ سموٹریچ نے ‘ایکس’ پر لکھا ہے ہمارے دشمنوں کو علم ہے کہ ہمیں پہنچنے والا کوئی بھی نقصان ہمیں مزید یہودی بستیاں بنانے کی طرف لے جائے گا۔ تاکہ ہمارا ملک پر قبضہ مزید پکا ہو سکے۔’

انتہا پسند وزیر خزانہ نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ اس فیصلے میں وزیر اعظم نیتن یاہو اور وزیر دفاع یوی گیلنٹ بھی شامل ہیں۔ اس فیصلے کے تحت 300 یہودی خاندانوں کے لیے گھر کیدار کی یہودی بستی میں مین تعمیر کیے جائیں گے اور 2350 معالی ادومیم کی یہودی بستی میں تعمیر کی جائیں گے۔ جبکہ 700 یہودی خاندانوں کے لیے گھروں کی تعمیر اس کے قریب ایفرات میں بنانے جائیں گے۔

یہ فیصلہ اسرائیل نے اس وقت کیا ہے جب صدر جوبائیڈن تاثر دے رہے ہیں کہ غزہ سے حماس کے خاتمے کے بعد غزہ اور مغربی کنارے کو اس دو ریاستی حل کی طرف لے جایا جائے گا جس کو وعدہ ہے مگر اسرائیل اس کی آج بھی مخالفت کرتا ہے۔ دو روز قبل اسرائیل نے اسی فیصلے کو یکطرفہ فلسطینی ریاست کا نام دے کر اپنی پارلیمنٹ سے مسترد کرایا ہے۔

‘اب امن’ کے نام سے کام کرنے والے انسانی حقوق کے ادارے کا کہنا ہے کہ ایک طرف مستقبل میں خوفناک حملوں کو روکنے کی بات کی جارہی تو دوسری جانب اسرائیل لڑائی اور تناؤ کو مزید بڑھانے کے اقدامات کر رہا ہے۔

مختصر لنک:

کاپی