فلسطین کلب برائےاسیران نے کہا ہے کہ قابض حکام نے فلسطین پر قابضے کے بعد سے حراستی پالیسی کو فلسطینیوںکے خلاف اجتماعی سزا کے ایک ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا ہے، کیونکہ اس نے سنہ1967ءسےاب تک 60000 بار فلسطینیوں کو انتظامی قید کی سزائیں سنائیں۔
خیال رہے کہ کسیبھی فلسطینی کو محض شبے کی بنیاد پر جیل میں ڈالنے کے لیے صہیونی ریاست نے انتظامیقید کے حربے کو بہ طور ہتھیار استعمال کرنا شروع کیا ہے۔ اس پالیسی کے تحت کسی بھیفلسطینی کو غیرمعینہ مدت تک پابند سلاسل رکھا جا سکتا ہے اور اس کے حوصلے پست کرنےکے لیے اس کی انتظامی قید کی سزا میں بار بار تجدید کی جاتی ہے۔ انسانی حقوق کیتنظیمیں انتظامی قید کی سزا کو غیرانسانی قرار دے کر مسترد کرچکی ہیں۔
ہفتے کو جاری کردہایک رپورٹ میں مرکز نے کہا کہ قابض فوج عوامیمزاحمت اور آزادی کی تحریک کی کارروائیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک ہتھیار کے طورپر انتظامی حراست کے استعمال کو بڑھا رہا ہے، کیونکہ انتظامی حراست میں شدت انقلابیصورتحال سے منسلک ہے۔ جیسے جیسے فلسطینی علاقوں میں مزاحمتی سرگرمیاں بڑھتی ہیںانتظامی قید میں بھی شدت لائی جاتی ہے۔
رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ انتظامی حراست کے گراف نے ایک ٹیڑھی شکل اختیار کر لی۔ قابض ریاست کے ابتدائیسالوں کے دوران اس میں غیر معمولی اضافہ ریکارڈ کیا گیا اور ایک دہائی کے بعد اس میںبتدریج کمی آنا شروع ہو گئی یہاں تک کہ 1980 تک تقریباً صفر تک پہنچ گیا۔ 1985 میںانتظامی حراست کو نافذ کرنے کا ظالمانہ سلسلہ دوبارہ شروع ہوا۔ دشمن نے ایسے فیصلوںکو فعال کرنے کا سہارا لیا جو اس کے وسیع پیمانے پر استعمال میں سہولت فراہم کرتے ہیں۔
سنہ 1987 میں پہلےانتفاضہ کے آغاز کے ساتھ ہی قابض حکام نے مقبوضہ علاقوں میں آہنی پنجے کی پالیسی کےتحت انتظامی نظربندی کے اطلاق کو بڑھا دیا۔ انتظامی نظربندی کے کیسز میں اضافہہوا۔ اوسلو معاہدے 1994ء کے بعد اس قسم کی حراست کی تعداد میں کمی واقع ہوئی۔ سال2000 کے آغاز میں، انتظامی نظربندوں کی تعداد صرف سات تک پہنچ گئی تھی۔
ستمبر 2000 میں الاقصیٰانتفاضہ کے آغاز کے ساتھ ہی یہ غیر منصفانہ پالیسی دوبارہ سامنے آئی اورنام نہاداسرائیلی عدالتوں کے ذریعے انتظامی احکامات کے اجراء میں اضافہ ہوا۔ بعض اوقات ہر ماہسینکڑوں فلسطینیوں کو انتظامی قید کی سزائیں سنائی جاتیں۔ انتظامی قیدیوں کی تعدادمیں بھی کافی حد تک اضافہ ہوا ہے۔
مرکز نے مزید کہاکہ انتفاضہ اقصیٰ کے پہلے سالوں میں انتظامی قیدیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ پھر دوبارہکم ہوا اور 2008 کے بعد کے سالوں کے دوران اس میں کمی دیکھی گئی یہاں تک کہ 2013 کےآخر میں تقریباً 150 قیدیوں تک پہنچ گئی۔
اس کے بعد 2014 میںانتظامی قیدیوں کی تعداد میں ایک بار پھراضافہ ریکارڈ کیا گیا اور بڑھتے ہوئے تقریباً350 قیدیوں تک پہنچ گئی۔ اکتوبر 2015 میں مسجد اقصیٰ میں کشیدگی کے بعد قابض ریاست نے دوبارہانتظامی حراستی احکامات کے اجراء کو بڑھایا۔ ہر ماہ انتظامی احکامات کی شرح ایک ہزارسے زیادہ فیصلوں تک پہنچ گئی اور حراست کی مدت تین ماہ سے تین سال کے درمیان کردیگئی۔ سنہ 2017 میں یہ 1700 سے زائد انتظامی فیصلوں تک پہنچ گئی۔