انتہا پسند قابضحکومت نے مقبوضہ بیت المقدس کے شمال میں واقع قلندیہ پناہ گزین کیمپ کے قریب واقع متروکاملاک کی اراضی پر بیت المقدس بین الاقوامی ہوائی اڈے کی زمینوں پر یہودی آباد کاریکے محلے کے قیام کے منصوبے پر زور دیا ہے۔
اس منصوبے میں9000 سیٹلمنٹ ہاؤسنگ یونٹس شامل ہوں گے، جن میں سے زیادہ ترحریدی کے آباد کاروںکے لیے مختص کیے جائیں گے۔
نئی یہودی کالونی1243 دونم پرقائم ہوگی جو فلسطینی اراضی پر قابض حکام کے زیر کنٹرول ہے اور نامنہاد "اسرائیل لینڈ فنڈ‘ کے زیراہتمام ہے۔ اس میں سیاحتی اور کمرشلاپارٹسمنٹس بھی شامل ہیں۔
قابض ریاست کا یہمنصوبہ تقریباً تین دہائیوں کے بعد سامنے آیا ہے جس کے دوران اسرائیلی حکومتوں نے1967ء کی سرحدوں کے اندر بستیوں کی منصوبہ بندی اور ترقی سے گریز کیا تھا۔ موجودہاسرائیلی حکومت یہودی آباد کاری کے منصوبے کوآگے بڑھانے کے لیے کام کر رہا ہے۔
اس آباد کاری کےمنصوبے کا مقصد یروشلم میں فلسطینی آبادی کو اقلیت میں تبدیل کرنا اور یہودیآباد کاری کو توسیع دینا ہے۔
اسرائیلی کنیسٹکے متعدد ارکان کی طرف سے ایک دستاویز میں کہا گیا ہے کہ اس بستی کے پڑوس کی تعمیرکی منظوری سے آبادیاتی اور اقتصادی پہلوؤں میں مدد ملے گی اور اس کا تزویراتی مفادہے کیونکہ اس کی تعمیر سے رام اللہ سے بیت المقدس تک فلسطینیوں کے زمینی رابطےمتاثرہوں گے۔
آباد کاری کامنصوبہ یروشلم میں فلسطینی تنصیبات کی مسماری میں اضافے کے ساتھ سامنے آیا ہے،جہاں گذشتہ سال قابض افواج نے مقبوضہ شہر میں (306) مسماری اور بلڈوزنگ آپریشن کیے۔مسماری کے 220 سے زائد فیصلے اور نوٹس بھیجے۔
سلوان کے 6 محلوںنے دھمکی دی ہے کہ وہ اپنے پورے گھروں کو مسمار کر دیں گے، یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہوہ بغیر اجازت کے بنائے گئے تھے، یا انہیں خالی کر دیں گے اور سیٹلمنٹ ایسوسی ایشنکے مفاد میں یہودی آباد کاروں کو نکالدیا جائے گا۔
گذشتہ برسوں کےدوران قابض میونسپلٹی کے عملے نے آباد کاروں کے فائدے کے لیے بتن الھوا محلے میں53 رہائشی عمارتوں کی بے دخلی کے احکامات کے علاوہ قصبے کے محلوں میں مکانات کی6817 عدالتی اور انتظامی مسماری کے احکامات جاری کیے۔
سلوان قصبہ مسجداقصیٰ اور اس کے محراب کا جنوبی علاقہ ہے، جہاں قابض فوج لوٹ مار یا گھروں کومسمار کرکے زمینوں پر قبضے اور اس کے قبرستانوں کو نشانہ بنا کر آبادی کو اکھاڑ پھینکنےکی کوشش کر رہی ہے۔