سه شنبه 03/دسامبر/2024

غرب اردن میں بگ ٹٹ آباد کاری "عظیم تر اسرائیل” کے خواب کی تعبیر؟

جمعہ 23-اگست-2024

اسرائیلی حکومتیں یکے بعد دیگرے  کئی دہائیوں سے، مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی بستیوں کی توسیع کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ یہ نہ صرف مغربی کنارے پر کنٹرول کو مضبوط کرنے اور فلسطینی عوام کی اپنی ریاست کے قیام کی امنگوں کو مجروح کرنے کے لیے ایک سٹریٹجک قدم ہے بلکہ یہ "عظیم تر یروشلم” منصوبے کا جزو لا ینفک بھی ہے۔ یہ آباد کاری کا ایک بڑا منصوبہ ہے جس کا مقصد بیت المقدس اور اس کے آس پاس کے علاقوں پر اسرائیلی تسلط کو مستحکم کرنا ہے۔

آباد کاری اور بین الاقوامی امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ قابض حکام کی جانب سے غوش عتصيون آباد کاری کمپلیکس اور مقبوضہ شہر بیت المقدس کو ملانے والی ایک نئی بستی کی تعمیر کی منظوری "گریٹر یروشلم” کے قیام کو تیز کرنے کی کوششوں کے حصے کے طور پر سامنے آئی ہے۔ جو مغربی کنارے کے رقبے کا تقریباً 10 فیصد بنتا ہے۔

انتہا پسند اسرائیلی وزیر خزانہ بیزلیل سموٹریچ نے حال ہی میں 602 ایکٹر رقبے پر ایک نئی بستی کی تعمیر کی منظوری دی جو غوش عتصيون آباد کاری کمپلیکس کو مقبوضہ بیت المقدس سے ملاتی ہے۔

نئی بستی بیت جالا شہر کے لیے بڑی رکاوٹ ہے اور الولجہ گاؤں اور دیر الکریمیزن کے درمیان فلسطینی اراضی پر قبضہ کر لے گی۔

آباد کاری کے معاملات پر گہری نظر رکھنے والے ماہر خلیل تفکجی کہتے ہیں کہ اس بستی کی تعمیر کی منظوری تین سیٹلمنٹ چوکیوں کے اندر اس علاقے میں آتی ہے جسے یونیسکو نے عالمی ورثہ قرار دیا ہے، جو ہار جیلو بستی کے جنوب میں واقع ایک تاریخی آثار قدیمہ کا علاقہ ہے۔

جناب تفکجی کے مطابق، نیا سیٹلمنٹ بلاک جنوب میں غوش عتصيون سیٹلمنٹ بلاک سے شروع ہوتا ہے، اور ایلیزر سیٹلمنٹ سے جا ملتا ہوتا ہے، جو غوش عتصيون اور بیت المقدس شہر کو مغربی جانب سے ملانے والی ایک توسیعی یہودی آبادی تشکیل دیتا ہے۔

خلیل تفکجی کے مطابق، مشرقی جانب، افرات بستی الخضر قصبے کی زمینوں پر واقع ہے، جب کہ دیر مار الیاس کے علاقے میں ایک نئی بستی تعمیر کی جا رہی ہے، جس میں  یہوددیوں کے لیے 3500 رہائشی مکانات شامل ہیں، جو تقریباً 50 منزلیں بلند ہیں، جبکہ 1100 ہوٹل یونٹس اس کے علاوہ ہیں۔

تفکجی نے تصدیق کی کہ نئی بستی کے بنیادی ڈھانچے میں بڑی سرنگیں شامل ہیں جن کا حال ہی میں افتتاح ہوا، یہ یہودی بستیوں کے درمیان رابطے کو بڑھاتی ہیں اور فلسطینیوں کے لیے رکاوٹوں کو بڑھاتی ہیں۔

تفکجی کے مطابق، اسرائیلی حکمت عملی غوش عتصيون سیٹلمنٹ بلاک پر مرکوز ہے، جسے "گریٹر یروشلم” کہا جاتا ہے، جو مغربی کنارے کے تقریباً 10 فیصد رقبے پر مشتمل ہے۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ اسرائیلی آباد کاری کا مقصد العرقوب کے علاقے میں فلسطینی دیہاتوں جیسے نہالین، حوسان اور بتیر کو بیت المقدس کے علاقے سے الگ کرنا ہے۔ اس علاقے میں داخلہ ایک سرنگ کے ذریعے ہے جو الخضر گاؤں تک کھولی گئی ہے، یہ مغربی علاقے میں فلسطینیوں کے داخلے کے لیے رکاوٹ ہے۔

”یہ اقدامات ایک وسیع تر منصوبے کےتحت آتے ہیں۔ اس میں نابلس کے جنوب میں کوہ صبیح پر قائم اویتار کی بستی، رام اللہ شہر سے ملحق البریح شہر کی زمینوں پر قائم بیت ایل بستی اور الخلیل کے علاقے میں ایک تیسری بستی شامل ہے۔”

انہوں نے کہا کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ "عظیم تر یروشلم” کے قیام کو تیز کرنے کی کوشش ہے اور مغربی کنارے میں آبادکاری کو مضبوط اور تیز کرنے کے لیے بین الاقوامی حالات اور امریکی حمایت سے فائدہ اٹھانا ہے۔ اس طرح یہ فلسطینی ریاست کے قیام کو روکتا ہے اور کسی بھی فلسطینی جغرافیائی اور آبادیاتی تسلسل میں خلل ڈالتا ہے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ صرف مغربی کنارے میں رہائشی بستیوں کی تعداد تقریباً 270 تک پہنچ گئی ہے۔ اس میں 35 صنعتی زونز کے علاوہ تقریباً 530 ہزار آباد کار آباد ہیں۔ جبکہ مقبوضہ بیت المقدس اس میں شامل نہیں ہے۔ یہ زمینیں 1982 میں ہتھیائی گئی تھیں اور انہیں غاصب اسرائیلی ریاست کی ملکیت قرار دیا گیا تھا۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اس وقت مغربی کنارے میں اسرائیلی بستیوں کا حجم یکم نومبر 2022 سے 31 اکتوبر 2023 کے درمیان نمایاں طور پر بڑھا ہے۔

آٹھ مارچ 2024 کو جاری ہونے والی یہ رپورٹ یکم نومبر 2022 سے 31 اکتوبر 2023 تک کے عرصے کے دوران مغربی کنارے میں اسرائیلی بستیوں کے اندر تقریباً 24300 رہائشی یونٹس کے قیام کی نشاندہی کرتی ہے۔

رپورٹ میں اشارہ کیا گیا ہے کہ اس سرگرمی میں مشرقی بیت المقدس میں قائم 9670 سیٹلمنٹ یونٹس شامل ہیں، جو 2017 میں آبادکاری کی سرگرمیوں کی نگرانی کے آغاز کے بعد سے ریکارڈ کی گئی بلند ترین سطح ہے۔

رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ موجودہ قابض حکومت کی پالیسیاں اسرائیل میں یہودی آباد کاری کی تحریک کے اہداف سے بے مثال حد تک مطابقت رکھتی ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ آباد کاری منصوبے اسرائیلی آباد کاروں اور ریاستی تشدد کے ساتھ ساتھ جبری بے دخلی، عمارتوں کے اجازت نامے جاری کرنے میں ناکامی، گھروں کو مسمار کرنے اور فلسطینیوں کی نقل و حرکت پر پابندیوں کے ذریعے فلسطینی شہریوں کی نقل مکانی کے ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔

اس سے پتہ چلتا ہے کہ 282 بچوں سمیت 592 افراد کو ان کے مکانات مسمار کرنے کے بعد زبردستی بے گھر کر دیا گیا کیونکہ انہوں نے اسرائیل اتھارٹی سے تعمیر کے اجازت نامے حاصل نہیں کیے تھے، جن کا حصول تقریباً ناممکن ہے۔

آباد کاری مخالف تحریک "پیس ناؤ”  اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ سال 2024 مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینی اراضی کی ضبطی کے عروج کی نمائندگی کرتا ہے اور ” انتہا پسند” قابض حکومت فلسطینی ریاست کے وجود کے تصور کے خلاف اپنے نظریات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کام کر رہی ہے۔

رپورٹ کے مطابق، گذشتہ جون میں، قابض حکام نے وادی اردن میں 12.7 مربع کلومیٹر اراضی پر قبضہ کرکے تین دہائیوں سے زائد عرصے میں مغربی کنارے میں فلسطینی اراضی کی سب سے بڑی ضبطی اور چوری کی منظوری دی۔
 
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ان بڑے علاقوں پر قبضے کا فیصلہ گذشتہ مارچ میں مغربی کنارے کی آٹھ مربع کلومیٹر اراضی اور فروری میں 2.6 مربع کلومیٹر زمین کی ضبطی کے بعد کیا گیا تھا، "اس طرح 2024 کو مغربی کنارے میں زمینوں کی ضبطی کا سال کہا جا سکتا ہے۔”

اسرائیلی آبادکاری کو اپنے آپ میں ایک عقیدے  کے طور پر مانتے ہیں۔ اسے مذہبی صہیونی تحریک نے اپنایا ہے جس کی قیادت دو انتہا پسند وزراء، ایتمار بین گویر اور بیزلل سموٹریچ کرتے ہیں۔

یہ وزراء مہینوں سے، وہ دو ریاستی حل کو ختم کرنے کے اپنے وعدے پر عمل درآمد کرتے ہوئے اور "گریٹر اسرائیل” کے توسیع پسند نظریے کے مطابق، مقبوضہ مغربی کنارے کے 60 فیصد حصے کو نگلنے کے منصوبوں پر عمل پیرا ہیں۔

ایک سے زیادہ مواقع پر، سموٹریچ نے بستیوں کو وسعت دینے کا اشارہ دیا، یہاں تک کہ انہوں نے فلسطینی ریاست کو یکطرفہ طور پر تسلیم کرنے والے ہر ملک کے نام پر ایک نئی بستی قائم کرنے کی تحویز دی اور کہا کہ ’’فلسطینی ریاست کے قیام کو ناکام بنانا ان کی زندگی کا مشن ہے۔

عظیم تر یروشلم کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کا اظہار سموٹریچ نے مغربی کنارے کی زمینوں کے حقیقی الحاق کو شروع کرنے کے لیے ایک "سیٹلمنٹ انتظامیہ” اتھارٹی تشکیل دے کر کیا تھا، جسے مذہبی صہیونیت یہودی لوگوں کا تاریخی اور مذہبی گڑھ سمجھتی ہے۔ سموٹریچ کہتے ہیں کہ یہ اسرائیل کی سرزمین کو متحد کرنے کا منصوبہ ہے

اس منصوبے میں مغربی کنارے کی 180 بستیوں اور 200 سیٹلمنٹ چوکیوں کو اسرائیل کی سرزمین سے منسلک کرنا شامل ہے، جن میں پانچ لاکھ یہودی آباد کار مقیم ہیں، جس کا مطلب ہے کہ مقبوضہ مغربی کنارے کی 60 فیصد سے زیادہ اراضی کو ہتھیانا ہے۔

یہ مقبوضہ بیت المقدس میں 27 بستیوں کو ضم کرنے کے علاوہ ہے، جس میں ایک چوتھائی ملین آباد کار آباد ہیں۔ اس منصوبے میں غیر مجاز سیٹلمنٹ چوکیوں کو قانونی شکل دینا اور نئی بستیوں کی تعمیر بھی شامل ہے۔

"عظیم تر یروشلم” ایک پرانا منصوبہ ہے جس کا نعرہ ہے زیادہ سے زیادہ یہودی اور کم سے کم عرب۔

 یہ منصوبہ اسرائیل کی طرف سے 1967 عیسوی میں مقدس شہر کے قبضے میں آنے کے بعد سے نافذ کیا گیا ہے، کیونکہ یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں نے یروشلم کے حوالے سے ایک مستقل، منظم پالیسی اپنائی، جس میں شہر اور اس کے گرد ونواح پر یہودیوں کے کنٹرول کو مستحکم کرنا اور اس کے جسمانی اتحاد کو مضبوط کرنا شامل تھا۔

محقق اور ماہر تعلیم فراس القواسمہ نے وژن سینٹر فار پولیٹیکل ڈویلپمنٹ کی طرف سے شائع کردہ ایک تحقیقی مقالے میں بتایا ہے کہ یروشلم میں آباد کاری کے بڑے منصوبوں کا مقصد آباد کاروں کی بڑی آبادی کو شہر کے مرکز میں منتقل کرنا  اور فلسطینی علاقوں کے درمیان جغرافیائی رابطہ منقطع کرنے والی آباد کاری چوکیوں، فوجی بیرکوں اور سڑکوں کے نیٹ ورکس کی تعیناتی کے ذریعے زمین کے بڑے علاقوں پر کنٹرول کو مضبوط کرنا ہے۔

القواسمہ کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ 1967 میں یروشلم پر قبضے کے بعد سب سے خطرناک آباد کاری کے منصوبے شروع کیے گئے تھے، خاص طور پر گریٹر یروشلم "میٹرو پولیٹن” پروجیکٹ، جو مغربی کنارے کے 10 فیصد علاقے کو کنٹرول کرتا ہے، اور اس کے شمالی اور جنوبی حصوں کو الگ کرتا ہے۔
 
اس کے ساتھ ساتھ نسلی امتیاز کی مظہر دیوار فاصل کا منصوبہ، جس نے میونسپلٹی کی سرحدوں سے باہر تقریباً 150000 فلسطینیوں کو الگ تھلگ کر دیا، اور یروشلم کی سرحدوں کے ساتھ تین سیٹلمنٹ بلاکس کو منسلک کیا۔

القواسمہ نے وضاحت کی ہے کہ گریٹر یروشلم پروجیکٹ جو اس فاؤنڈیشن نے شروع کیا تھا دو منظرناموں پر مبنی ہے: پہلا، جو اس وقت موجود ہے، اس کا مقصد مشرقی بیت المقدس کے آس پاس کے تین بڑے سیٹلمنٹ کو جوڑنا ہے، جن میں ایک "معالیہ ادومیم” ہے جس میں آٹھ بستیاں شامل ہیں، اور وہاں 49000 یہودی آباد کار بستے ہیں۔

شمال مغرب میں "جفعات زئیف”  ہے، جس میں پانچ بستیاں اور 26000 آباد کار شامل ہیں۔ جنوب میں غوش عتصيون ہے، جس میں 14 بستیاں اور 86000 آباد کار شامل ہیں۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ مشرقی یروشلم کے علاوہ یہ تینوں بستیاں مل کر مغربی کنارے کے تقریباً 4.5 فیصد رقبے پر مشتمل ہیں اور بیت المقدس میں دیوار ان تینوں کی سرحدوں پر بنائی گئی تھی۔

جہاں تک دوسرے منظر نامے کا تعلق ہے – القواسمہ کے مطابق – یہ زیادہ خطرناک ہے، اور اسے "گریٹر یروشلم پروجیکٹ” (میٹرو پولیٹن پلان) بھی کہا جاتا ہے، اور اس کا مقصد ان تین بلاکس کے آس پاس کی دوسری زمینوں کا باہم الحاق اور اس کا دائرہ وسیع کرنا ہے۔ یہ یروشلم، رام اللہ، بیت لحم اور الخلیل کی زمینیں ہیں اور اس منصوبے کا رقبہ تقریباً مغربی کنارے کے رقبے کا تقریباً 10 فیصد ہے جو کہ 5655 مربع کلومیٹر بنتا ہے۔

 

مختصر لنک:

کاپی