فلسطین کی ایک صدیبالخصوص سنہ 1948ء میں صہیونی ریاست کے ارض فلسطین میں قیام کے بعد ارض مقدس نہتےفلسطینیوں کے خون سے رنگین دکھائی دیتی ہے۔ خاص طور پر سنہ 1948ء کو قیام اسرائیلکے بعد فلسطینیوںکےقتل عام کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ آج تک جاری ہے۔
صہیونی جرائم پیشہاور قاتل گینگ کےہاتھوں نہتے فلسطینیوں کے منظم قتل عام کے ان گنت واقعات میں ‘کفرقاسم’ میں قتل عام کا واقعہ بھی شامل ہے۔ اس واقعے کی المناک اور دردناک یادیں آجبھی تازہ ہیں اور شاید صدیوں یہ زخم مندمل نہیںہوپائیں گے۔
کفر قاسم میں قتل عام کے اہداف
فلسطین میں کفرقاسم کے مقام پر فلسطینیوںکے اجتماعی قتل عام کے واقعے کا پس منظر 29 اکتوبر1956ء کی مصر اسرائیل جنگ بھی ہے۔ انہی دنوں میں صہیونی فوج نے مصرپر یلغار کی تھی۔
مورخین کا کہناہے کہ 291957ء کو شمالی فلسطین اور غرب اردن کے درمیان علاقے المثلث کے درمیانواقع کفرقاسم میں میں اس وقت قتل عام کیا گیا ہے المثلث سے بڑی تعداد میں فلسطینینقل مکانی کرکے اس علاقے میں پہنچے۔ اس وقت غرب اردن کا علاقہ اردن کے زیرانتظام تھا اور کفر قاسم اس کا حصہ تھا۔ یہاںپر فلسطینیوں کے قتل عام کے ذریعے ایک بار پھر دیر یاسین اور دیگر بڑے بڑے قتل عامکے واقعات کی یاد تازہ کی گئی۔
مبصرین کا کہناہے کہ اسرائیلی مجرموںنے سنہ 1949ء سے 1956ء تک تین ہزار نہتے فلسطینیوں کو شہیدکیا۔ ان میں سے بیشتر وہ تھے جو نقل مکانی کے بعد اپنے گھروں کو واپس جا رہے تھے۔کفرقاسم میں فلسطینیوں کےقتل عام کے سنگین جرم کی نگرانی ارئیل شیرون نے کی تھیاور وہ اس وقت اسرائیلی فوج کی یونٹ 101 کا کمانڈر تھا۔
سابقہ قتل عام
کفر قاسم میں قتلعام کے وعاقعے سے قبل 11 ستمبر 1956ءکو صہیونی فوج نے اسی علاقے میں 20 اردنی فوجیوںکو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ اس کے بعد بیت لحم میں حوسان کےمقام پر صہیونیوں نے39 فلسطینیوں کو اجتماعی طور پر شہید کردیا تھا جب کہ اسی ماہ قلقیلیہ میں 88فلسطینیوںکو بے دردی کے ساتھ قتل کردیا تھا۔
کفر قاسم میں قتل عام کا آغاز کیسے ہوا؟
کفر قاسم میںفلسطینیوںکے قتل عام کے واقع کا آغاز اس وقت ہوا جب اسرائیلی فوج نے المثلث اوراس کے اطراف کے علاقوں میں کرفیو لگا دیا اور فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکلنےسے روک دیا۔ اس طرح شمال میں ام الفحم اور شمال میں کفر قاسم میں جتنی بھی فلسطینیآبادیاں اور بستیاں تھیں ان میں کرفیو لگا دیا گیا۔ یہ کرفیو 29 اکتوبر مقامی وقتکے مطابق شام 5 بجے سے صبح چھ بجے تک لگایاگیا۔
اس کے بعد صہیونیفوج کی بھاری نفری نے کفر قاسم کو کئی اطراف سے گھیرے میں لے لیا۔ صہیونی فوج کو یہحکم دیا گیا کہ اگر کوئی شخص اپنے گھر کے باہر بھی کھڑا نظر آئے تو اسے گولیاں مارکر قتل کردیا جائے اور کسی فلسطینی کے ساتھ کوئی نرمی نہ برتی جائے۔ اگر کوئی بچہعورت یا بوڑھا دکھائی دے تو اسے بھی کرفیو کی خلاف ورزی کے جرم میں گولیوں سے اڑادیا جائے۔
صہیونی فوج کیبھاری نفری نے کفر قاسم ، المثلث، کفر برا، الطیرہ، جلجولیہ، الطیبہ اور قلنسوہ کوگھیرے میں لے لیا۔ ان تمام فوجیوں کی کمان میجر شموئل ملینکی کے ہاتھ میں تھی جسےبارڈ فورس کے کمانڈر اور فوجی بریگیڈ یسخار شدمی کی ہدایات حاصل تھیں۔
کفر قاسم میںداخل ہونے والے اسرائیلی فوجیوں کو چار گروپوں میں تقسیم کیا گیا۔ ایک ٹولی مغربیداخلی راستے پر کھڑی کی گئی۔ فوجیوں کے آپریشن کمانڈر یہودا زشنکسی نے قصبے کے اسوقت کے فلسطینی چیئرمین ودیع احمد صرصور کو حکم دیا کہ وہ تمام لوگوں سے کہہ دیںکہ شام پانچ بجے کے بعد کوئی شخص گھر سے باہر نہ نکلے۔
صرصور نے اسرائیلیفوجی افسرسے کہا کہ اس وقت چار سو افراد گائوں سے باہر کام پر ہیں اور وہ واپس نہیںآئے۔ صہیونی عہدیدار نے وعدہ کیا کہ باہر سے آنے والوں کو بہ حفاظت ان کے گھروں میںپہنچایا جائے گا۔
پانچ بجتے ہی کفرقاسم میں ہرطرف گولیوں کی بوچھاڑ شروع ہوگئی اور لوگ خوف کے مارے اپنے گھروں میںدبک گئے تھے۔ کھیتوں میں کام کاج کے بعد گھروںکو لوٹنے والوں پر صہیونی فوج نےاندھا دھند گولیاںچلانا شروع کردیں اور کچھ ہی دیر میں 49 فلسطینیوں کو شہید اورسیکڑوں کو زخمی کردیا تھا۔ ان میں دسیوں شدید زخمی ہوگئے تھے۔ ان نہتے فلسطینیوںکو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ کفر قاسم میں کرفیو لگا دیا گیا ہے۔
شہدا میں عمر رسیدہ،23 بچے جن کی عمریں8 سے 17 سال کے درمیان اور 13 خواتین بھی شامل تھیں۔ اس وقتکفر قاسم کی کل آبادی دو ہزار نفوس پر مشتمل تھی۔ قصبے کے مغربی دروازے پر 43 فلسطینیوںکو شہید کیا گیا