شن بیٹ کے سابقسربراہ یووال ڈسکن نے اسرائیلی ریاست میں ’خانہ جنگی‘ کے خطرے سے خبردار کیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی فرقہ واریت کے سنگین خطرات منڈلا رہے ہیں۔ انہوں نےکہا کہ یہ غیرمعمولی صورت حال ہے کہ اسرائیل اپنے قیام کے بعد اس نوعیت کی تفریقکا سامنا کررہا ہے۔
ڈسکن نے اخبار’یدیعوتاحرونوت‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں کہا کہ "اسرائیل” کو تین باراس کے وجود کے لیے حقیقی خطرہ لاحق ہوا، پہلا اور دوسرا 1948 اور 1973 میں اور تیسراحقیقی اور وجودی خطرہ اسرائیل کے مستقبل کے لیےموجودہ سال 2022 میں ہے۔
ان کا خیال ہے کہموجودہ وجودی خطرہ پچھلے دو خطرات سے مختلف ہے۔ سابقہ دونوں خطرات عرب فوجوں کےساتھ براہ راست لڑائیاں تھیں۔ جہاں تک موجودہ خطرے کا تعلق ہے تو یہ اندرونی ٹوٹپھوٹ اورانتشارکا خطرہ ہے۔ اس طرح اندرونی لڑائی اور ایک گھمبیر خانہ جنگی کی طرفلے جا رہی ہیں۔
انہوں نے خبردارکیا کہ میں اپنی زندگی میں اتنا بے چین کبھی نہیں تھا جتنا آج ہوں۔ مختلف نظریاتاور آراء میں اختلاف ہمیشہ سے موجود رہے ہیں اور ضروری ہیں، لیکن سنہ 2000 کے بعددوسری اور تیسری دہائیوں میں نظریہ اسرائیلی سیاست سے تقریباً مکمل طور پر غائب ہوگیا اور ان کی جگہ نفرت نے لے لی جسے مفاد پرست کئی شخصیات نے مزید بھڑکایا ہے اورنفرت ان کے کیمپ کا مشترکہ عنصر ہے۔
شن بیٹ کے سابقسربراہ نے کہا کہ اسرائیلی سیاست میں نفرت نے ایک خطرناک کھیل پیدا کر دیا ہے جودوسرے کے لیے ناقابل برداشت ہو گیا ہے۔ یا تو آپ ہوں یا میں، خواہ دائیں ہوں یابائیں، یا عرب اور یہودی، اشکنازی ہوں یا مشرقی، مذہبی اور سیکولر، سب بکھر گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہمشترکہ چھتری کی عدم موجودگی میں اسرائیلی معاشرہ "قبائل اور بلاکس میں بٹجائے گا جن کی شناخت دوسرے بلاکس کے لیے ان کی نفرت کی حد کی بنیاد پرقائم ہوگی۔ نفرتایک سماجی اور سیاسی مکالمے کی طرف لے جاتی ہے۔