کل جمعرات کی شام کو فلسطینی نوجوانوں کے ایک گروپ نے رام اللہ کے شمال مغرب میں راس کرکر گاؤں کے قریب غاصب یہودی آباد کاروں کی گاڑیوں کو پتھروں سے نشانہ بنایا۔
مقامی ذرائع نے اطلاع دی ہے کہ نوجوانوں نے راس کرکر گاؤں کے قریب آباد کاروں کی گاڑیوں پر پتھراؤ کیا اوربہ حفاظت وہاں سے واپس چلے گئے۔ واقعے کے بعد قابض فوج نے علاقے میں بھاری نفری تعینات کرکے فلسطینی نوجوانوں کے خلاف سرچ آپریشن شروع کردیا۔
ذرائع نے بتایا کہ نوجوان گاؤں کے قریب آباد کاروں کی گاڑیوں کو مسلسل نشانہ بناتے ہیں اور وہ گاؤں کی زمینوں پر واقع پہاڑ الریسان پر آباد کاروں کی دراندازی اور حملوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔
راس کرکر گاؤں کے مکینوں کا اصرار ہے کہ وہ قابض اسرائیلی افواج کی حمایت یافتہ مسلح آباد کاروں کی دہشت کے باوجود اپنے باپ ،دادا کی زمین کو ترک نہیں کریں گے۔
گذشتہ نومبرمیں قابض فوج نے رام اللہ کے قریب راس کرکر اور کفر نیما کے دیہات کی زمینوں پر واقع جبل الریسان کی 5 دونم اراضی پر قبضہ کرنے کا فوجی فیصلہ جاری کیا۔
راس کرکر گاؤں کی کونسل کے سربراہ راضی ابو فخیدہ کا کہنا ہے کہ درجنوں سال پہلے گاؤں نے اپنی زیادہ تر زمینیں اسرائیلی بستیوں کی وجہ سے کھو دی تھیں۔ یہ یہودی بستیاں اب گاؤں کو تین اطراف سے گھیرے ہوئے ہیں۔
بستی ہر طرف سے گاؤں کو دبا دیتی ہے اور گاؤں میں تقریباً 2200 لوگ رہتے ہیں، جنہیں اوسلو معاہدے کے مطابق سیکٹر "B” اسکیم میں شامل کرکے انہیں کسی قسم کی تعمیرات سے محروم کردیا گیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ اس گاؤں میں حال ہی میں فلسطینی نوجوانوں، قابض فوج اور بھاری ہتھیاروں سے لیس آباد کاروں کے درمیان تصادم دیکھنے میں آیا ہے۔ قابض فوج نے اُنہیں براہ راست اور ربڑ کی گولیوں اور صوتی بموں سے نشانہ بنایا جس سے درجنوں افراد زخمی ہوگئے۔