فلسطین میں یہودی آبادکاری کی سرگرمیوں میں اضافے، زمین کی لوٹ مار کے عمل کے نفاذ کے ساتھ، مغربی کنارے میں قدرتی ذخائر ایک نئے ذریعے کے طور پر ابھرے ہیں جن پر قبضے کی آڑ میں فلسطینیوں کی قیمتی اراضی کی لوٹ مار کی جا رہی ہے۔
2020 کے آغاز میں نفتالی بینیٹ جو اس وقت اسرائیلی وزیر جنگ کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے نے وادی اردن میں سات فطرت سیرگاہیں قائم کرنے اور مغربی کنارے کی زمینوں میں 12 دیگر ذخائر کو وسعت دینے کا فیصلہ جاری کیا۔ اس کا مقصد ایریا C کی باقی ماندہ زمینوں کے دسیوں ہزار دونم کی لوٹ مار اور ان پرقبضہ کرناتھا۔
مغربی کنارے میں قدرتی ذخائر کے علاقوں کا تخمینہ تقریباً نصف ملین دونم ہے جن میں سے زیادہ تر کی درجہ بندی سیکٹر (C) والے علاقوں میں کی گئی ہے۔ ان کا فلسطینیوں کے لیے استعمال یا فائدہ اٹھانا ممنوع ہے اور انھیں ایک اسٹریٹجک اثاثہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
’عین العوجا‘ اوسلو کے بعد سب سے بڑی لوٹ مار
لوٹ مار اور قبضے کی پالیسی کے طور پر قابض اسرائیلی حکام نے حال ہی میں اریحا میں "عین العوجا” قدرتی مقام پر قبضہ کر لیا۔ یہ ایک نیچرل ریرزو ہے جس کا رقبہ 22000 ایکڑ ہے، اور یہ مغربی کنارے میں فلسطینیوں کا سب سے بڑا قدرتی ذخیرہ ہے۔
عبرانی اخبار’ہارٹز‘ نے اطلاع دی ہے کہ مغربی کنارے میں اسرائیلی سول انتظامیہ کے سربراہ نے گذشتہ اپریل میں فطرت کے ذخائر (عین العوجا) کے کنٹرول کا اعلان کرتے ہوئے ایک حکم نامے پر دستخط کیے۔یہ اس علاقے میں سب سے بڑا قدرتی ذخیرہ ہے اور اوسلو معاہدے کے بعد یہ ایک ہی وقت میں فلسطینیوں کی اراضی پر غاصبانہ قبضے کا سب سے بڑا واقعہ ہے۔
قابض حکام کی طرف سے جاری کردہ اعلامیے اور حکم نامے میں زمین کے استعمال کی اجازت کو محدود کیا گیا ہے اور اس فلسطینی فطرتی ذخیرے کو یہودیت اور آباد کاری کے منصوبوں کے دائرے میں بھی رکھا گیا ہے۔
کئی دہائیوں کے دوران قابض حکام نے مقبوضہ مغربی کنارے اور القدس میں لاکھوں دونم کو قدرتی مقامات کے ذخائر” قرار دیا ہے اور فلسطینیوں کے ان مقامات میں داخلے پر پابندیاں لگانا شروع کر دی ہیں۔
ایک بیان میں بائیں بازو کی یہودی آبادکاری مخالف تنظیم "پیس ناؤ” تحریک نے عین العوجہ پر قبضے کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ "ریزرو پر کنٹرول کے اعلان کا مقصد اسے محفوظ رکھنا نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد زمین کے ایک بڑے ٹکڑے پرقبضہ کرنا ہے۔ یہ بھی فلسطینیوں کی اراضی ہتھیانے کا ایک ہتھکنڈہ ہے۔
اراضی کی ڈکیتی
"مرکزاطلاعات فلسطین” سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے وادی اردن یہودی آباد کاری مخالف تحریک کے رکن مُعتز بشارات نے کہا کہ یہ قدم قابض حکام کی طرف سے غرب اردن کے الحاق کے عمل کو نافذ کرنے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کا حصہ ہے۔ یہ اقدام فلسطینیوں کی قیمتی اراضی کی لوٹ مار، اور قیمتی اراضی کی ڈکیتی کی بدترین شکل ہے۔
اُنہوں نے دو سال قبل اسرائیلی وزیراعظم نفتالی بینیٹ کی طرف سے کیے گئے فیصلوں کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ نفتالی قابض ریاست وزیردفاع کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے جب انہوں نے وادی اردن میں دسیوں ہزار دونم رقبے پر سات قدرتی ذخائر قائم کرنے کی منظوری دی تھی۔انہوں نے ان مقامات کو”نیچر ریزرو” کا نام دیا۔ شمالی وادی اردن میں 76 ہزار دونم اس کے علاوہ قبضے میں لینے کی منظوری دی گئی۔
بشارات بتاتے ہیں کہ قابض ریاست فلسطینی اراضی کو "قدرت کے ذخائر” کے طور پر درجہ بندی کر کے خود کو ان کو لوٹنے، ان میں بستیاں اور چوکیاں قائم کرنے اور انہیں سیٹلمنٹ کونسل کو کرائے پر دینے کی اجازت دیتی ہے۔