فلسطین کے بہادر رہ نما اور نہ ڈر مزاحمتی قائدین میں الشیخ حسن یوسف اپنے جاہ وجلال، جہاد آزادی فلسطین، مزاحمت کے میدان اور دشمن کی قید میں تفتیشی سیلوں میں تشدد سہنے کے باوجود تحریک آزادی کے میدان میں پیش پیش رہے اور دشمن کے تمام مکروہ ہتھکنڈے اور جبروتشدد کے ظالمانہ حربے ان کے پائے استقلال کو نہ ہلا سکے۔
الشیخ حسن یوسف حماس کے رہ نما قانون ساز کونسل میں ایک نمائندے، اصلاح پسند لیڈر اور قیدیوں اور مظلوموں کے حامی، اتحاد کےحامی، 20 بار اسرائیلی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہو کر 24 سال قید وبند کاٹنے والے فلسطینہی رہ نما ہیں۔
قابض فوج نے نہ صرف قانون ساز کونسل میں نمائندے اور حماس کے ایک رہنما حسن یوسف کو 24 سال تک قید کیا بلکہ دیگر سالوں تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے غائب رہنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔
سنہ 2005 سے لے کرآج تک رکن قانون ساز کونسل مسلسل 6 ماہ سے زیادہ جیل سے باہر نہیں گزارا۔ ان گرفتاریوں میں سے زیادہ ترانتظامی قید میں بغیر مقدمہ چلائے قید کیے رکھا۔
ابتدائی زندگی
الشیخ حسن یوسف داؤد دار خلیل شیخ حسن یوسف کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ وہ 14 اپریل 1955 کو رام اللہ کے مغرب میں واقع گاؤں الجانیہ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے پرائمری تک اپنے گاؤں میں تعلیم حاصل کی۔ پھر قریبی قصبے کفر نعمہ میں مڈل اور ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کی۔
ان کے والد شیخ یوسف داؤد گاؤں کی مسجد کے امام، مؤذن اور مبلغ تھے اور حسن کو بچپن سے ہی مساجد سے لگاؤ تھا۔
گرفتاری اور ملک بدری
رکن قانون ساز کونسل حسن یوسف کو ان کی سماجی اور سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے 1971 سے قابض حکام نے نشانہ بنایا۔ انہیں پہلی بار اس وقت گرفتار کیا گیا جب ان کی عمر16 سال تھی۔
ان کی دوسری گرفتاری نوے کی دہائی کے اوائل میں "حماس” سے تعلق کے الزام میں عمل میں آئی۔ گرفتاری کی مدت ان کی حماس اور اسلامی جہاد کے 417 رہنماؤں کے ساتھ ایک سال کے لیے جنوبی لبنان میں مرج الزہور میں جلاوطنی کے ساتھ ختم ہوئی۔ ان کی شخصیت کو نکھارنے اور فلسطین کی سطح پر قومی اور اسلامی ایکشن کے لیڈروں میں سے ایک کے طور پر انہیں اجاگر کرنے میں اہم اثرات مرتب ہوئے۔
سنہ 2005 میں شیخ یوسف کو دوبارہ گرفتار کیا گیا اور انہیں 6 سال قید کی سزا سنائی گئی۔گرفتاری کے باوجود انہوں نے 2006 کے قانون ساز کونسل کے انتخابات میں "تبدیلی اور اصلاحات” کی ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیا اور جیل میں رہتے ہوئے قانون ساز کونسل کے رکن منتخب ہوگئے۔
سنہ 2011 میں ان کی رہائی کے فوراً بعد ان کے خلاف 6 ماہ کے لیے انتظامی حراست کا حکم جاری کیا گیا اور مجموعی طور پر ڈھائی سال انتظامی حراست میں گزارنے کے بعد ان کی رہائی عمل میں لائی گئی۔
جون 2014 میں انہیں دوبارہ گرفتار کیا گیا اور ایک سال انتظامی حراست میں گزارا۔اکتوبر 2015 میں دوبارہ گرفتار کر لیا گیا اور اگست 2017 میں رہا ہونے تک 22 ماہ تک حراست میں گزارے۔
قابض حکام نے اسے 13 دسمبر 2017 کو دوبارہ گرفتار کیا اور ان کے خلاف انتظامی حراست کا حکم جاری کیا گیا۔ 11 اکتوبر 2018 کو رہا کیا گیا۔ اپریل 2019 تک، جب اسے دوبارہ گرفتار کیا گیا۔
اکتوبر 2020 میں رام اللہ کے جنوب میں واقع بیتونیا قصبے میں ان کے گھر پر دھاوا بول کر تلاشی لینے کے بعد گرفتار کیا اور ان کی 20 گرفتاریوں کی تعداد بیس ہوگئی۔