چهارشنبه 30/آوریل/2025

’یقین نہیں تھا کہ ایک ایک مسیحا بھی فدائی ثابت ہوگا‘

اتوار 12-ستمبر-2021

مقبوضہ بیت المقدس کے فلسطینی باشندوں اور مسجد اقصٰی کے نمازیوں کو قطعا یہ یقین نہیں تھا کہ ڈاکٹر حازم الجولانی جیسا ایک پیشہ ور، محنت، انسان دوست اور اپنے کام میں ہراعتبار سے منفرد اور ممتاز شخص بھی قابض صہیونی دشمن کے مظالم کے خلاف ایک فدائی بن کرجام شہادت نوش کرے گا۔ ڈاکٹر حازم کی شہادت نے یہ ثابت کردیا ہے کہ فلسطین کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد قابض ریاست کے خلاف ایک ہی جیسا طرز عمل اور رویہ رکھتے اور قابض ریاست کے خلاف لڑنے اور آزادی کی جدو جہد کے جذبے سےسرشار ہیں۔

شہید ڈاکٹر الجولانی جب تک زندہ رہے انہوں نے بیت المقدس کے فلسطینی باشندوں کی خدمت میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ وہ ایک پیشہ ور ڈاکٹر ہی نہیں بلکہ اہالیان القدس کے لیے ایک ہمدرد مسیحا تھے۔ شہریوں کی طبی خدمت ان کا اوڑھنا بچھونا تھا اور وہ دن رات لوگوں کی طبی معاونت کرتے رہے۔ یہاں تک کہ تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق قابض پولیس کے ساتھ لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کردیا۔

اگرچہ قابض صہیونی حکام نے یہ دعویٰ کیا کہ 51 سالہ الجولانی نے شعفاط کے مقام پر ایک اسرائیلی پولیس اہلکار کو چاقو کے وار سے زخمی کیا تاہم یہ ثابت ہوا ہے کہ ڈاکٹر حازم نے ایسا کچھ نہیں کیا تھا۔ ان کی شہادت ماورائے عدالت فلسطینیوں کے قتل عام کے طویل سلسلے کی ایک نئی کڑی ہے۔

بیت المقدس کے فلسطینی ذریعے نے مرکزاطلاعات فلسطین کو بتایا کہ ڈاکٹر الجولانی شہرکے ہڈیوں اور پٹھوں کے مشہور اور قابل اعتبار ڈاکٹر تھے۔ طب کے شعبے میں خدمات پرانہیں کئی عالمی اور علاقائی تمغوں سے نوازا گیا تھا۔

وہ فلسطینی عوام کے دلوں میں دھڑکتے اور ہرایک ان کی دل وجان سے عزت کرتا تھا۔ اس کی وجہ ان کا خدمت خلق کا بے لوث جذبہ تھا جس نے بالعموم القدس اور بالخصوص شعفاط بلدیہ میں لوگوں کے دلوں میں گھر کرلیا تھا۔

انہوں نے بیت المقدس میں 14 سال قبل ایک میڈیکل انسٹٹیوٹ قائم کیا۔ یہ شہر میں کسی فلسطینی ڈاکٹر کی طرف سے واحد ایک ایسا تربیتی ادارہ تھا جس میں زیرتعلیم طلبا وطالبات کوطب کا ڈپلوماہ جاری کیا جاتا۔ ان کی انہی طبی خدمات کی وجہ سے صہیونی دشمن ان سے خار کھائے بیٹھا اور ان جان سے مارنے کے لیے موقعے کی تلاش میں تھا۔ نسل پرست صہیونی دشمن ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ان کے تعاقب میں رہا۔

قابض دشمن کی طرف سے ان کےلیے حسد اور بغض رکھنے کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ القدس میں ایک پیشہ ور ماہر معالج تھے اور یہی وہ بات تھی جسے صہیونی کسی قیمت پرقبول کرنے کو تیار نہ تھے۔

والد کی وفات کے بعد حازم الجولانی کا خاندان معاشی مسائل کا شکار ہوا۔ تب الجولانی خود زیرتعلیم تھے۔ انہوں نے اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی تعلیم اور ان کی ضروریات کی کفالت بھی سنھبالی اور اپنی تعلیم بھی جاری رکھی۔ سنہ 2006ء میں انہوں نے بیت المقدس میں چائنی اور نیچرل میڈیسن سینٹر اور مساج سینٹر کھولا۔

اسرائیلی جامعات میں حصول تعلیم میں درپیش مشکلات اور منظم رکاوٹوں کے باعث وہ القدس میں اپنا ایک ازاد ادارہ کھولنے میں پرمجبور ہوئے۔ پہلے یہ سینٹر صرف دو کمروں پر مشتمل تھا جسے بعد ازاں ایک تاریخی عمارت میں شاہراہ صلاح الدین پر منتقل کردیا گیا۔

انہوں نے اپنے اس ادارے کا نام’ریان‘ رکھا جسے باقاعدہ سرکاری سطح پر ایک رجسٹرڈ ادارے کا درجہ دیا گیا۔

الجولانی اپنا میڈیکل انسٹیٹوٹ کھولنے سے قبل کچھ عرصے کے لیے تدریس کے شعبے سے بھی منسلک رہے۔ اس ادارے کے قیام کے بعد وہ وہاں پر تعلیم حاصل کرنے والے فلسطینی بچوں سے نہایت معمولی معاوضہ لیتے اور انہیں اعلیٰ معیاری طبی تربیت فراہم کرتے رہے۔

مختصر لنک:

کاپی