جمعه 15/نوامبر/2024

عرب حکمرانوں کی اسرائیل سے دوستی کے پیچھے اقتدار چھن جانے کا خوف

جمعرات 29-اکتوبر-2020

اسرائیل کو تسلیم کرنے اور صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات کے قیام کے بعد بحرین اور صہیونی ریاست کے درمیان فضائی سروس کا آغاز ہوگیا ہے مگر مبصرین کا کہنا ہے کہ صہیونی ریاست اور بحرین کے درمیان فضائی سروس کا فائدہ بحرین کو نہیں بلکہ اس سے واحد مستفید صرف صہیونی ریاست ہوگی۔

بحرین اور اسرائیل کے درمیان طے پانے والے شرمناک اور نام نہاد امن معاہدے کے بعد دونوں‌ ملکوں ‌کے درمیان تجارت، معیشت، سیاحت اور دوسرے شعبوں میں تعاون کے معاہدے ہوچکے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ صہیونی ریاست کے بحرین کے ساتھ فضائی سروس کا معاہدہ کرکے خلیجی ممالک میں اپنے قدم جمانے کی راہ ہموار کی ہے جب کہ بحرین کو اس سے خاطر خواہ فایدہ نہیں پہنچے گا۔

بحرین اور اسرائیل کے درمیان 15 ستمبر کو امریکا میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی موجودگی میں سمجھوتے پر دستخط ہوئے۔ اس موقعے پر متحدہ عرب امارات کی قیادت بھی موجود تھی۔ سنہ 1979ء میں مصر اور 1994ء میں اردن کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کے جانے کے بعد متحدہ عرب امارات، بحرین اور اب سوڈان نے بھی صہیونی ریاست کو تسلیم کرلیا ہے۔

بحرین اور اسرائیل کے درمیان ہفتے میں 14 پروازیں چلائی جائیں گی جب کہ بحرین اور مقبوضہ ایلات کے درمیان غیرمعدود پروازوں کی اجازت دی گئی ہے۔ ایسی پروازیں جو بحرین یا اسرائیل کے ساتھ ساتھ دوسرے ملکوں کا سفر کریں گی وہ بھی صہیونی ریاست کے ایلات ہوائی اڈے کو استعمال کرکے صہیونی ریاست کو مالی فائدہ پہنچائیں گی۔

دوسری طرف امارات نے اسرائیل کے بن گوریون ہوائی اڈے اور ابوظبی کے درمیان ہفتے میں 28 پروازوں کا اعلان کیا ہے۔

معیشت اور سیکیورٹی

صہیونی ریاست خلیجی ممالک کے ساتھ معاہدوں کے ذریعے اپنی سیکیورٹی کومستحکم کرنا چاہتا ہے۔اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ بحرین اور امارات کے ساتھ معاہدوں کے مسودات کی تیاری میں کلیدی کردار اسرائیل کے بیرون ملک سرگرم ادارے ‘موساد’ کا ہے جس نے صہیونی ریاست کی سیکیورٹی کے پیش نظر معاہدوں کے مسودے اور نقشہ راہ تیار کیا۔

تاہم ان معاہدوں کے صہیونی ریاست کے لیے اقتصادی اور معاشی فواید سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اس کا اظہار حال ہی میں اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو نے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بحرین کے ساتھ معاہدے کے نتیجے میں اسرائیل کو غیرمعمولی فواید حاصل ہوں ‌گے۔

تجزیہ نگار طلال عوکل نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے بحرین اور اسرائیل کے درمیان فضائی سروس کے دونوں ملکوں‌کے لیے فواید پر روشنی ڈالی۔ ان کا کہنا تھا کہ خلیجی ریاستوں اور اسرائیل کے درمیان دوستانہ تعلقات صرف اسرائیل سے دوستی ہی نہیں بلکہ ان ملکوں کے اپنے تاریخی موقف سے کھلا انحراف ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں‌نے کہا کہ اسی اصولی موقف سے انحراف کا آغاز 1978ء میں مصر اور اسرائیل کے درمیان کیمپ ڈیوڈ معاہدے سے ہوا۔ اس کے بعد اردن نے اسی ڈگر پر چلتے ہوئے 1994ء میں اسرائیل کے ساتھ وادی عربہ معاہدہ کیا۔ یہ صرف اقتصادی یا سیاحتی نہیں بلکہ اسرائیل کی سلامتی کی ضمانت کے معاہدے تھے۔

انہوں‌ نے کہا کہ اسرائیل کے ساتھ معاہدہ کرکے بحرین کو کچھ حاصل نہیں ہوگا مگر اسرائیل کو بحرین اور دوسرے خلیجی ملکوں میں سرمایہ کاری، اپنی سیاحت کے فروغ اور اپنی مصنوعات کو عرب ملکوں میں فروخت کرنے کا موقع ملے گا۔ اس طرح صہیونی ریاست ہراعتبار سے ان معاہدوں سے مستفید ہوگی اور عرب ممالک منہ دیکھتے رہ جائیں گے۔

امریکا اور ایران

گذشتہ کئی سال سے امریکا اور اسرائیل خلیجی ملکوں کو ایران کے خطرے کا ڈراوا دے کر اپنے موقف کو مضبوط کرنے اور ان ملکوں کے ساتھ اسرائیل کی قربت پیدا کرنے کی راہ ہموار کرچکے ہیں۔

طلال عوکل کا کہنا ہے کہ خلیجی ریاستوں اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو وسعت دینےکے عمل میں فضائی سروس بھی شامل ہے۔

انہوں‌ نے کہا کہ خلیجی ممالک کا قومی مفادات کےحصول کا تصور سنگین غلطی پر مبنی ہے۔ صہیونی ریاست کے ساتھ دوستی اسرائیل کی سلامتی کےلیے تو ہوسکتی ہے مگر یہ اقدام عرب اقوام کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ ان ملکوں نے اسرائیل کو اپنے ہاں پنجے گاڑنے کا موقع فراہم کیا۔ اسی طرح سوڈان نے اسرائیل کو تسلیم کرکے مصر اور افریقی ممالک کی سلامتی کو دائو پر لگا دیا ہے۔

تل ابیب اور خلیجی ملکوں کے درمیان تعلقات کا قیام امریکا کے مفاد میں ہے۔ امریکا نے حسنی مبارک کی معزولی کے بعد جس موقف کی تائید کی تھی اب وہ اسی کے خلاف چل رہا ہے۔

تجزیہ نگار جمقان کا کہنا ہے کہ خلیجی ممالک کے حکمرانوں کو ڈر ہے کہ ان کا انجام حسنی مبارک، علی عبداللہ صالح یا تونس کے زین العابدین بن علی اور کرنل قذافی جیسا نہ ہو۔ اسی خوف نے انہیں اسرائیل کو تسلیم کرنے پر مجبور کیا۔

خلیجی ملکوں کے حکمران طبقے کو توقع ہے کہ امریکا کی حمایت اور اسرائیل کے ساتھ ان کے تعلقات ان کے اقتدار کو بچا سکتے ہیں۔

سابق امریکی صدر باراک اوباما نے ایران کے ساتھ جو معاہدہ کیا اسے عرب ملکوں اور نیتن یاھو نے ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ مل کر ناکام توڑ دیا اور یہ کہا کہ ایران خلیجی ممالک کو اندر سے کم زورکررہا ہے اور اس کا جوہری پروگرام اسرائیل اور خلیجی ملکوں کے لیے خطرہ ہے۔

مختصر لنک:

کاپی