تل الزعتر پناہ گزین کیمپ لبنان کے دارالحکومت بیروت کے قریب واقع ہے۔ یہ کیمپ ایک سے زاید بار قابض صہیونی ریاست کے منظم اور سفاکانہ قتل عام کا نشانہ بن چکا ہے۔ مگر 12 اگست 1976ء کو شروع ہونے والے 52 روزہ قتل عام کو انسانی تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ اس کیمپ کے نہتے پناہ گزینوں، بچوں، خواتین اور بوڑھوں پر 52 دنوں میں 55 ہزار بم اور گولے گرائے گئے جس کے نتیجے میں 4280 معصوم فلسطینی شہید ہوئے۔ دو ماہ کے قریب جاری رہنے والی جارحیت اور کیمپ کی مقامی خانہ جنگی کے نتیجے میں کیمپ کے گلیاں اور محلے لاشوں سے بھر گئے۔ ہر روز کئی کئی سو لاشیں اٹھائی جاتیں اور بڑی تعداد میں زخمیوں کو اسپتالوں میں لے جایا جاتا۔
صہیونی فوج نے سوویت یونین سے حاصل کردہ ‘ٹی 54’ نامی ٹینکوں اور سپر شیرمن ٹینکوں کے دھانے کھول دیے اور بلا امیتاز دن رات کیمپ کےنہتے مریضوں پر بم باری کی جاتی رہی۔
کیمپ کا قیام
الزعتر پناہ گزین کیمپ کا قیام سنہ 1949ء میں اس وقت عمل میں لایا گیا جب فلسطین میں صہیونی قاتل گینگ نے فلسطینیوں پر قیامت ڈھا دی۔ ہزارون کی تعداد میں فلسطینی اپنے گھر بار چھوڑ کر ھجرت پرمجبور ہوگئے۔ ان میں سے کئی سو فلسطینی خاندان لٹے پٹے بیروت پہنچے اور شمال مشرقی بیروت میں ایک مربع کلو میٹر کے علاقے پر انہیں اپنا کیمپ قائم کرنے کی اجازت دی گئی۔
یہاں پربہ طور پناہ گزین منتقل ہونے والے فلسطینیوں نے کھیتی باڑی کو اپنا ذریعہ معاش بنایا۔ کیمپ کے اندر سبزیاں اور فصلیں کاشت کی جانی لگیں۔
سنہ 1968ء کے بعد بیروت کے شمالی علاقے میں زرعی سرگرمیاں کم اور صنعتوں اور کارخانوں کےقیام سے صنعتی سرگرمیوں میں اضافہ ہوگیا۔ اس کا اثر فلسطینی پناہ گزیں کیمپ پر بھی پڑا۔
الزعتر پناہ زین کیمپ میں آنے والے فلسطینیوں کی آبادی میں فطری انداز میں اضافہ ہوا۔ سنہ 1950ء میں اس کیمپ کے فلسطینی مکینوں کی تعداد 400 تھی۔ سنہ 1955ء میں اس میں اس میں چھ ہزار کا اضافہ ہوا۔ سنہ 1961ء میں 6600 ہوگئی اور 1970ء میں یہ تعداد بڑھ کر 13 ہزار سے تجاوز کرگئی۔ سنہ 1976ء میں جب اس کیمپ پر قیامت ڈھائی گئی اس وقت اس میں 20 ہزار فلسطینی اور 10 ہزار سے زاید لبنانی قیام پذیر تھے۔
ناکہ بندی اور قتل عام
انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ چوالیس سال قبل لبنان میں ’’تل الزعتر‘ نامی پناہ گزین کیمپ میں اسرائیلی معاونت کے ذریعے نہتے فلسطینی پناہ گزینوں کے قتل عام کے چونکا دینے والے اثرات آج بھی محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تل الزعتر قتل عام کے دوران شہید ہونے والے دسیوں فلسطینی شہداء کو آج تک باضابطہ قبرستان میں تدفین نہیں کیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ سنہ 1976ء کو لبنان میں تل الزعتری کے مقام پر اسرائیل نواز لبنانی دائیں بازو کے شدت پسندوں نے 52 روز تک فلسطینی پناہ گزین کیمپ کا محاصرہ جاری رکھتے ہوئے کیمپ کی 60 ہزار سے زاید آبادی پر 55 ہزار بم برسائے تھے جس کے نتیجے میں سیکڑوں فلسطینی پناہ گزین بچے، عورتیں اور مرد شہید ہوگئے تھے۔
بارہ اگست 2020ء کو اس المناک واقعے کو 44 سال پورے ہوگئے مگرچار دہائیاں قبل ہونے والے قتل عام کی ہولناکیاں آج بھی تازہ ہیں۔
جنیوا میں صدر دفتر سے جاری ’یورو مڈل ایسٹ آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس‘ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تل الزعتر کیمپ میں فلسطینیوں کے قتل عام کے حقیقی اعدادو شمار کبھی سامنے نہیں آئیں گے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دسیوں شہداء آج تک قبروں میں دفن نہیں کیے جاسکے ہیں۔
تل الزعتر کیمپ میں چالیس سال قبل ہونے والی دہشت گردی کے نتیجے میں سیکڑوں بے گناہ شہری مارے گئے۔ مقامی آبادی کے پاس شہریوں کو دفن کرنے کے لیے جگہ نہیں تھی۔ درجنوں شہداء کو ایک ایک میٹر سے بھی کم گہرے گڑھے کھود کرانہیں دفن کیا گیا۔ بعض کو قبرستانوں کے بجائے کار پارکننگ کے لیے مختص مقامات اور دیواروں کے احاطوں میں دفن کیا گیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تل زعتری قتل عام کےتین ماہ کے بعد کیمپ میں ایک عارضی قبرستان کا پتا چلایا گیا جس میں 80 افراد کو درگور کیا گیا تھا۔
تل الزعتر پناہ گزین کیمپ میں فلسطینیوں کے قتل عام کے مختلف اعدادو شمار بیان کیے جاتے ہیں۔ بعض نے ہلاکتوں کی تعداد 1500 بیان کی ہے۔ بعض 2000 بتاتے ہیں جب کہ اس جارحیت میں کم سے کم 4 ہزار 280 فلسطینیوں کو شہید کیا گیا تھا۔