گذشتہ جون کے پچیس تاریخ کو دمشق کی گورنری کے اعلان کے مطابق شام کے علاقے قابون میں فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے قائم کردہ یرموک کیمپ کے نئے تنظیمی منصوبے کی منظوری نے پناہ گزینوں کو ایک نئے خدشے اور تشویش میں ڈال دیا ہے۔ فلسطینی پناہ گزینوں کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کے نتیجے میں کیمپ کی قانونی حیثیت ختم ہوجائے گی۔ یہ تشویش ان فلسطینیوں کے لیے زیادہ اہم ہے جو سرکاری فورسز اور مسلح تنظیموں کے درمیان نو سال قبل ہونے والی جھڑپوں کے نتیجے میں کیمپ سے ھجرت کرگئے تھے۔
پناہ گزین کیمپ کے لیے شامی حکومت کے نئے پلان میں بہ ظاہر تعمیر نو کا پلان تیار کیا گیا ہے مگر اس کے نتیجے میں کیمپ کے وجود اور اس کی قضیہ فلسطین کے ساتھ منسلک علامت خطرے میں پڑ جائے گی۔ منصوبے کے تحت یرکوم پناہ گزین کیمپ کی 15 سال کے عرصے میں تعمیر نو کا ایک پلان تیار کیا گیا ہے۔ پہلے مرحلے میں کیمپ کے سب سے زیادہ متاثرہ مقامات کی تعمیر نو،دوسرے مرحلے میں درمیانے درجے کے متاثرین اور آخر میں کم متاثرہ علاقوں کی تعمیرو مرمت شامل ہے۔
کیمپ کے رہائشیوں کے مطابق نئی اسکیم کا خطرہ اس کی انجینئرنگ تنظیم کو نمایاں طور پر تبدیل کرنے اورگھروں ، عمارتوں اور بازاروں سمیت سڑکوں اور گلیوں کے غائب ہونے کی شکل میں سامنے آسکتی ہے۔
مہاجرین کے امور کے ماہر محقق فائز ابو عید نے قدس پریس کو دیئے گئے اپنے انٹرویو میں کہا کہ یرموک کیمپ کے معاملے کی اہمیت شامی حکومت کے زمینی پلان میں پنہاں ہے کیونکہ اس کا دعوی ہے کہ یہ اسکیم کیمپ کی حدود سے باہر کی زمینوں میں ایک معمولی ترمیم پر مشتمل ہے۔
ابو عید نے کہا کہ "یرموک” کی اراضی پرانے کیمپ اور زرعی اراضی میں تقسیم کی گئی ہے۔ اہم مسئلہ یہ ہے کہ مہاجرین کے لیے جنرل اتھارٹی کی اراضی کے باہر ماضی میں تعمیر ہونے والی عمارتوں کے بارے میں مستقل لائحہ عمل تیار نہیں کیا گیا جس کے بارے میں حکام کی منظوری سے انجینئرنگ میونسپل لائسنس حاصل کیے تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ فلسطینی مہاجرین کے لیے جنرل اتھارٹی کی اراضی کے بارے میں شامی حکومت کا خیال ہے کہ اس کا تعلق ریاست کے ساتھ ہے جس کی نمائندگی مہاجرین کے لیے جنرل اتھارٹی کرتی ہے اس نے مہاجرین میں زمینوں کی تقسیم کو منظوری دے دی ہے۔
تاہم ابو عید کے مطابق ایک فلسطینی مہاجر زمین پر تعمیرات کا مالک ہے ، اور ضابطے سے متعلق قانون کو چیلینج کرنے کے لئے ایک مقدمہ دائر کر سکتا ہے۔اگر قبول ہوجاتا ہے تو ریاست اس کو معاوضے کے قانون کی طرح معاوضہ دیتی ہے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ اس طرح کے معاملات میں دسیوں سال لگتے ہیں ، اور انضباطی قوانین کے اجراء کا رواج یہ ہے کہ شکایات یا اعتراضات پیش کرنے کی ایک مقررہ مدت ہوتی ہے ، جو ان قوانین سے متاثر ہیں۔
قانونی شارہ جوئی کے امکان پر "ابو عید” کا خیال ہے کہ شام کے اندر فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے یہ بہت مشکل ہے کیوں کہ اعتراضات جنرل اتھارٹی کی تشکیل کردہ کمیٹی میں جمع کروائے جائیں گے جس کے اپنے اختیارات محدود ہیں۔