عراق میں جب سے کرونا وائرس کی وجہ سے کرفیو، لاک ڈائون اور پابندیوں کا نفاذ کیا ہے بغداد اور دوسرے شہروں میں رہائش پذیر فلسطینی پناہ گزینوں کی مشکلات بھی دوچند ہوگئی ہیں۔
عراق میں فلسطینی پناہ گزین پہلے ہی طرح طرح کی مشکلات کا شکار ہیں۔ کرونا وائرس کی پابندیوں اور عراقی حکومت کے اقدامات کےدرمیان فلسطینی پناہ گزین پس رہے ہیں۔
فلسطینی پناہ گزینوں کی مشکلات میں اضافہ ہونے کےساتھ ہی ان کی معاشی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔ کئی علاقوں میں موجود فلسطینی پناہ گزین بھوک اور افلاس کا شکار ہیں۔ عراق میں موجود فلسطینیوں میں سے بیشتر کا یا تو کوئی ذریعہ آمدن نہیں یا اگر ہے بھی تو کرونا کی وبا نے ان سے ذرائع چھین لیے ہیں۔ فلسطینی پناہ گزین انتہائی معمولی اجرت پرکام کرنے اور گذر بسر کرنے پر مجبور ہیں۔
عراق میں سابقہ حکومتوں کی طرف سے فلسطینی پناہ گزینوں کو ریٹائرمنٹ اور لواحقین کو فوتگی الائنسز دیے جاتے رہے ہیں مگر کچھ عرصے سے عراقی حکومتوں نے فلسطینیوں کو اس سے محروم کردیا ہے۔ یوں فلسطینیوں کو سوشل انشورینس کی شکل میں ماہانہ ملنے والے بیوہ، عمر رسیدہ اور خصوصی افراد کے 42 ڈالر کے الائونس سے بھی محروم کردیا گیا ہے۔
اس پر مزید ظلم فلسطینی پناہ گزینوں کے ذمہ دار ادارے اونروا کی طرف سے عراق میں موجود 200 خاندانوں کی کفالت کی بندش کے اعلان کی شکل میں ہوا۔ اقوام متحدہ کی ریلیف ایجنسی کی طرف سے انتقامی سیاست اختیار کی گئی اور دو سو خاندانوں کے رہائشی الائونس اور رہائش کے کرایہ جات کے عوض دی جانے والی امداد بند کرکے ان کی زندگی کی آخری رمق بھی ختم کردی۔
عراق میں فلسطینی تجزیہ نگار نبیل سمارہ نے "قدس پریس” سے بات کرتے ہوئے کہا کہ "اونروا” کا اقدام سراسر نا انصافی اور ظالمانہ ہے۔
سمارہ کا کہنا تھا کہ انروا کی طرف سے فلسطینی پناہ گزینوں کی امداد بند کی گئی جس کے نتیجے میں نہ صرف دیگر فلسطینی متاثر ہوئے بلکہ یتیم بچے، بیوائیں، بزرگ اور معذور افراد کو بھی برابر ان کے رہائشی الائونسز سے محروم کردیا گیا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم عام حالات میں بھی اپنی تمام بنیادی ضروریات پوری کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے مگر حالیہ عرصے میں عراق دو کاری ضربیں لگائی گئیں۔ ایک ضرب عراقی حکومت کی طرف سے فلسطینی پناہ گزینوں کے رہائشی الائونسز کی بندش ہے اور دوسرا انروا کی طرف سے فلسطینی پناہ گزینوں کی امداد بند کرنا ہے۔
عراق میں فلسطینی سفیر احمد عقو نے ایک بیان میں کہا تھا کہ عراق میں اونروا کی طرف سے فلسطینی پناہ گزینوں کی اجرت بند کرنے کے بعد ہمیں بحران کے حل کے لیے اقوام متحدہ سے بات کرنا پڑے گی۔ مگر ایسے لگتا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی نے اس حوالے سے کوئی اقدام نہیں کیا ہے۔
خیال رہے کہ عراق میں اس وقت کم سے کم چار ہزار فلسطینی پناہ گزین انتہائی نا مساعد حالات میں زندگی بسر کرنے پرمجبور ہیں۔ عراقی حکومت اور اقوام متحدہ کے امداد دینے والے ادارے نے بھی فلسطینی پناہ گزینوں کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کی انجام دہی سے راہ فرار اختیار کی ہے۔