اسلامی تحریک مزاحمت ‘حماس’ کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ھنیہ کہا ہے کہ بعض ثالث ممالک کی طرف سے اسرائیل کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کےلیے رابطے کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حماس سے رابطہ کرنےوالے ممالک کی طرف سے قیدیوں کے تبادلے کے لیے جماعت کا موقف معلوم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ حماس نے بتا دیا ہے کہ حماس کی طرف سے اسیران کاموقف واضح اور دو ٹوک ہے۔
العربی ٹی وی چینل کو دیے گئے انٹرویو میں حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ نے کہا کہ ہم نے رابطہ کرنے والے ممالک اور قوتوں پر واضح کیا ہے کہ اسرائیل کو قیدیوں کی رہائی کی ڈیل میں اپنی جیلوں میں قید ہمارے عمر رسیدہ، بیمار، بچوں ، خواتین اور گیلاد شالیت معاہدے کے تحت رہائی کے بعد گرفتار فلسطینیوں کو رہا کرنا ہوگا۔
حماس رہ نما نے کہا کہ جماعت کے عسکری ونگ نہ سنہ 2014ء میں چار اسرائیلی فوجیوں کو اس لیے جنگی قیدی بنایا تاکہ صہیونی ریاست کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات میں اپنے قیدیوں کی رہائی کی راہ ہموار کی جائے۔
خیال رہے کہ حماس کے غزہ کی پٹی میں انچارج یحییٰ السنوار نے اسرائیل کو قیدیوں کے تبادلے کی پش کش کی تھی۔ ان کے تجویز کردہ فارمولے میں اسرائیلی جیلوں میں قید بچوں، بیماروں ، خواتین اور عمر رسیدہ افراد کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
حماس رہ نما نےکہا کہ سعودی عرب کا موجودہ موقف عرب ممالک کے اجتماعی اصولی موقف سے انحراف پرمبنی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حماس اور سعودی عرب کے باہمی تعلقات شاندار مضبوط رہے ہیں مگر حالیہ عرصے کے دوران سعودی عرب کی طرف سے جو اقدامات اٹھائے اور فلسطینی شہریوں کو گرفتار کرکے ان کا ظالمانہ ٹرائل شروع کیا ہے۔ اس قدام نے فلسطینی قوم اور حماس کو بہت زیادہ مایوس کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کی جیلوں میں قید فلسطینیوں کی رہائی کی کوششیں جاری رکھیں گے۔