اسلامی تحریک مزاحمت’حماس’ کےغزہ کی پٹی میں جماعت کے سربراہ یحییٰ السنوار نے حال ہی میں الاقصیٰ ٹی وی چینل کو دیے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ انہوں نے کرونا کے بحران کے دوران اسرائیل کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے لیے ایک نئی پیش کش کی ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے یحییٰ السنوار کی طرف سے پیش کردہ فارمولہ اسرائیل کے لیے ایک بہترین موقع ہے اور اسرائیل کو فائدہ اٹھانا چاہیے۔
السنوار نے ایک ٹی وی شو میں انٹرویو میں کہا کہ ہم نے اسرائیل کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے معاملے میں معمولی لچک دکھائی ہے۔ ہم نے اسرائیل سے کہا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی میں جنگی قیدی بنائے گئے فوجیوں کی رہائی کے بدلے میں عمر رسیدہ، بیمار اور بچوں کو رہا کرے اور کرونا بحران سے فائدہ اٹھائے۔
انہوں نے کہا کہ صہیونی ریاست کی جیلوں میں قید فلسطینیوں کو اسرائیل کو رہا کرنا ہوگا اور اپنے قیدیوں کے بدلے میں اسرائیل کو بھاری قیمت چکانا ہوگی جیسا کہ معاہدہ احرارمیں ہوا تھا۔
حماس کے موقف میں سنجیدگی
فلسطینی سیاسی تجزیہ نگار ابراہیم المدھون نے یحییٰ السنوار کی جانب سے قیدیوں کے تبادلے کے لیے پیش کردہ فارمولے پربات کرتے ہوئے کہا کہ حماس اسیران کے معاملے کو تحریک دینے کا کوئی موقع ضائع نہیں ہونے دیتی مگریہ دوسری طرف سے صہیونی ریاست اپنی ہٹ دھرمی اور غیر لچک دار طرزعمل کی وجہ سے ہرموقع ضائع کردیتی ہے۔
قدس پریس سے بات کرتے ہوئے المدھون نے کہا کہ السنوار کی طرف سے اسرائیل کو قیدیوں کی رہائی کی ڈیل سے متعلق واضح موقف اختیار کیا گیا ہے۔ ان کا یہ پیغام ہے کہ حماس قیدیوں کو صہیونی دشمن کی جیلوں میں نہیں دیکھنا چاہتی اور ان کی رہائی کے لیے ہرممکن کوشش اور نئے فارمولے پیش کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ صہیونی ریاست کا قبیح چہرہ پہلے ہی فلسطینی قوم کے سامنے آچکا ہے۔ عمر رسیدہ، بیماروں اور زخمیوں کو حراست میں لینا اور انہیں عقوبت خانوں میں حالات کے جبر کے سپرد کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزیوں کا مرتکب ہو رہا ہے۔
المدھون نے کہا کہ السنوار کا فارمولہ اسرائیلی قیدیوں کے اقارب کے لیےبھی ایک پیغام ہے۔ حماس نے قیدیوں کے حوالے سے لچک کا مظاہرہ کیا ہے۔
اہم اقدام
فلسطینی اسیران کے امور کےماہرعبدالناصر فروانہ نے ایک بیان میں کہا کہ السنوار کے پیش کردہ فارمولے کو انسانی پہلو سے دیکھنا چاہیے۔ اس فارمولے میں حماس رہ نما نے لچک کا مظاہرہ کیا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ حماس اپنے اسیر بہن بھائیوں کے حالات کو تشویش کی نگاہ سے دیکتھی ہے۔
قدس پریس سے بات کرتے ہوئے فروانہ نے کہا کہ السنوار کی طرف سے پیش کردہ فارمولہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اس فارمولہ ایک ایسے وقت میں پیش کیاگیا ہے جب حماس اسیران کے معاملے میں سیاسی، قانون، انسانی حقوق اور ابلاغی پہلوئوں پرپہلے ہی کام کرچکی ہے۔ حماس سمجھتی ہے کہ اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی بھائی کرونا کی بیماری کی وجہ سے خطرے سے دوچار ہیں۔ یہ خطرہ اس وقت اور بھی بڑھ جاتا ہے جب عالمی ادارے اسرائیلی ریاست کی مجرمانہ غفلت پرتماشائی بن جاتے ہیں۔ اس وقت ویسے ہی پوری دنیا کرونا کی وجہ سے داخلی الجھنوں کا شکار ہے۔
عبدالناصر فروانہ کا کہنا تھاکہ السنوارکے فارمولے اور پیش کش پر اسرائیلی ریاست کے سیاسی، سیکیورٹی اور ابلاغی حلقوں میں ایک نئی بحث شروع ہوگئی ہے۔ اسرائیلی حکومت اس پرخاموش ہے مگر سیاسی حلقوں، عوامی اور ابلاغی ادروں کی طرف سے السنوار کے فارمولے کو قبول کرنے کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔
اسرائیل کے عبرانی اخبار’معاریو’ نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ السنوارنے قیدیوں کے معاملے میں ایک نیا دروازہ کھول دیا ہے۔
عبرانی اخبار نے سیکیورٹی اور سیاسی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ السنوار کی پیش کش وزارت برائے داخلی سلامتی کے اعلیٰ عہدیداروں کا اجلاس ہوا اور السنوار کی پیش کش پرغور کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بنیادی فلسفہ اسیران کے حوالے سے اہم پیش قدمی کرنا، غزہ کی پٹی کے لیے انسانی امداد اور دیگر اقدامات پر مشتمل ایک پیکج تیار کرنا ہے۔