امریکا کے مزعومہ صہیونی ریاست کے مفادات کے لیے پیش کردہ نام نہاد امن فارمولے’سنچری ڈیل’ میں فلسطینی قوم کے مفادات کو سراسر نظرانداز کیا گیا۔ امریکا کے اس منصوبے سے نہ صرف خطے کی سلامتی کو نقصان پہنچایا گیا بلکہ فلسطینی ریاست کے وجود کو بھی مزید خطرے میں ڈال دیا گیا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیلی ریاست کا دارالحکومت بنائے جانے کے اعلان کے بعد صہیونیوں کی طرف سے فلسطینیوں، فلسطینی مقدسات اور ارض فلسطین کے خلاف جارحانہ کارروائیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا۔ مسجد اقصیٰ پر یہودی شرپسندوں کےدھاووں میں اضافہ، مسجد اقصیٰ کے نمازیوں پر تشدد، اسرائیل کو یہودیوں کا قومی ملک قرار دینا، صہیونی لیڈروں کی طرف وادی اردن کو اسرائیل کا حصہ قرار دینا اور ارض فلسطین کو دوسرے ممالک کے ساتھ ہرطرح کے روابط سے محروم کرنے کی کوشش ہے۔
فلسطینیوں کی قومی سلامتی کو دائو پرلگانے کے ساتھ ساتھ اردن کی سلامتی کو بھی نقصان پہنچانے کی دانستہ کوشش ہے۔ مارچ 2019ء میں اردنی فرمانروا شاہ عبداللہ دوم نے کہا تھا کہ وہ فلسطینیوں کی اردن میں آباد کاری، متبادل وطن اور القدس پر سودے بازی قبول نہیں کی جائے گی۔ القدس سرخ لکیر ہے اور فلسطینی قوم کے اس دیرینہ حق کو اس سے محروم نہیں کیا جائے گا۔
یگال آلون کا منصوبہ
حال ہی میں اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کی انتخابات میں کامیابی کے بعد غرب اردن اور وادی اردن کو اسرائیل میں شامل کرنے کے امکانات اور خدشات میں اور بھی اضافہ ہوا۔
فلسطینی تجزیہ نگار ولید عبدالحی کا کہنا ہے کہ وادن اردن کو اسرائیل میں ضم کرنے کا پہلی بار منصوبہ سنہ 1967ء کی جنگ کے بعد پیش کیا گیا۔
اردن کی الیرموک یونیورسٹی کے پروفیسر اور تعلقات عامہ کے پروفیسر ولید عبدالحی نےکہا کہ یہ منصوبہ یگال آلون نے جون 1967ء کی جنگ کے بعد پیش کیا۔ اسرائیلی ریاست اور اس کے سرکردہ لیڈروں نے وادی اردن کو صہیونی ریاست میں ضم کرنے کی مہم چلائے جا رکھی۔
یگال آلون کے منصوبے کے تین اہداف ہیں۔ وادی اردن پرقبضہ کرنے کا مقصد صہیونی ریاست کی اردن اور اسرائیل کےدرمیان سیکیورٹی کی ایک سرحد قائم کرنا ہے۔ اس عرب اکثریتی پٹی میں فلسطینی اور عرب وجود کو کمزور کرنا اور ارض فلسطین پر صہیونی ریاست اور یہودیت کی چھاپ کو مزید گہرا کرنا تھا۔
پروفیسر عبدالحی کا کہنا تھا کہ چند ماہ قبل اسرائیلی آرمی چیف جنرل گیڈی آئزن کوٹ نے ایک کتاب تالیف جس میں انہوں نے صہیونی ریاست کی تزویراتی گہرائی کو تفصیل سے بیان کیا گیا۔ وادی اردن شمال سے جنوب تک 137 کلو میٹر اور مشرق سے مغرب کے درمیان 14 کلو میٹر پر مشتمل ہے۔ یہ علاقہ اسرائیل کی تزویراتی گہرائی کے لیے کافی نہیں۔ ضرورت پڑی تو صہیونی ریاست مزید علاقوں میں اپنے توسیعی منصوبوں کو آگے بڑھائے گی۔
اقتصادی اھداف
دوسری طرف وادی اردن فلسطینی قوم کے لیے غذا کی ٹوکری کا درجہ رکھتی ہے۔ یہاں پرکاشت کی جانے والی سبزیاں، پھل اور فصلیں فلسطینیوں کے لیے اقتصادی اہمیت سے کم نہیں۔ اگر وادی اردن پر صہیونی ریاست کا قبضہ قائم ہوتا ہے تو وہاں سے نہ صرف بڑی تعداد میں فلسطینی نقل مکانی پرمجبور ہوں گے بلکہ فلسطینی قوم ایک بڑے اقتصادی حق سے محروم ہوجائیں گے۔
عبدالحی کا مزید کہنا تھا کہ کچھ عرصہ پیشتر جاپان نے ‘اقتصادی امن اور امید کوری ڈور’ کے نام سے ایک نیا منصوبہ پیش کیا۔ اس منصوبے کا مقصد فلسطین کی اقتصادی صورت حال کوبہتر بنانا تھا۔ اس میں اردن، جاپان، فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کو شامل کیا گیا۔ اس منصوبے کے تحت وادی اردن کو ایک زخیر علاقہ قرار دینے کے ساتھ وہاں پر جدید خطوط پر زرعی اجناس کی کاشت اور اس کے بعد زرعی مصنوعات کی خلیجی ممالک کو سپلائی کی تجویز پیش کی گئی۔
وادی اردن مقبوضہ مغربی کنارے کے کل رقبے کا 28 فی صد اور اوسلو معاہدے کی تقسیم کے تحت سیکٹر ‘سی’ کااہم ترین علاقہ ہے۔ سیکٹر سی میں شامل علاقوں میں 61 فی صد وادی اردن کو شامل کیا گیا ہے۔
پروفیسر عبدالحی کا کہنا ہے کہ وادی اردن کو اسرائیل میں ضم کرنا فلسطینی ریاست کو ایک اہم عرب ملک کی سرحد سے محروم کرنا ہے۔ یہ ایسے ہی جیسے غزہ کی پٹی کو مصر اور علاقائی پانیوں سے محروم کیا گیا۔ غزہ کی پٹی کا کوئی براہ راست سمندری، فضائی اور زمینی راستہ نہیں۔ غزہ کی پٹی کے جس بندرگاہ کی تجویز پیش کی گئی ہے وہ بھی اسرائیلی ریاست کی نگرانی میں ہوگی۔