جمعه 15/نوامبر/2024

عراق کی جیلوں میں قید فلسطینیوں کا انجام کیا ہوگا؟

پیر 16-مارچ-2020

یہ سنہ 2006ء میں سردیوں کی ایک رات تھی جب نقاب پوش ملیشیا کے مسلح جنگجوئوں نے بغداد میں رہائش پذیر ایک فلسطینی پناہ گزین خالد مصطفیٰ محمود کی رہائش گاہ پرچھاپہ مارا۔ یہ گروپ عراق پرامریکی یلغار کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ملیشیائوں میں سے ایک تھا۔ خالد مصطفیٰ محمود کو حراست میں لینے کے بعد نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا تھا۔

محمود کے بیٹے اسامہ نے ‘قدس پریس’ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب عراقی مسلح اہلکاروں نے ہمارے گھر پرچھاپہ مارا تو اس وقت میری عمر 14 سال تھی۔ ہم اس وقت کی خوف کی کیفیت کو بیان نہیں کرسکتے۔ اسامہ کا کہنا ہے کہ میں اور میرے تمام بہن بھائی بہت زیادہ خوف زدہ تھے۔ وہ وقت میری آنکھوں سے کبھی اوجھل نہیں ہوتا۔

انہوں نے مزید کہا کہ مسلح افراد ایک مفرور شخص کی تلاش میں تھے اور ان کے ہاتھ میں اشتہاریوں کی ایک فہرست تھی۔ اس فہرست میں ہمارے والد کا نام نہیں تھا۔ اس کے باوجود ہمارے والد کو حراست میں لے لیا گیا۔ اس کے بعد سے آج تک ہم نے انہیں دیکھا تک نہیں۔

اسامہ نے مزید کہا کہ ہمارے والد کی گرفتاری کے پیچھے فلسطینیوں کو نشانہ بنانے کی پالیسی ہے۔عراق میں فلسطینی پناہ گزینوں کا قتل، اغواء، گرفتاریاں اور گھروں سے اٹھا کر غائب کرنے کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ عراق میں فلسطینی پناہ گزینوں کی زندگی اجیرن بنا دی گئی ہے۔

اسامہ نے کہا کہ ہم نے اپنے والد کو تلاش کرنے کی بہت کوشش کی۔ میری ماں، میرا بڑا بھائی عراقی فوج کے ہر سیکیورٹی مرکز، ہرجیل اور ہر حراستی مرکزمیں ان کی تلاش کے لیے پہنچے مگرانہیں سوائے دھمکیوں کے کچھ نہیں بتایا گیا۔ اس کے بعد آج تک ہم اپنے والد کے انجام کے بارے میں کچھ نہیں جانتے کہ وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں۔

اسامہ نے نزید کہا کہ ہمارے خاندان کو والد کی گرفتاری کے کئی سال کے بعد ایک بار پھرسخت مشکلات کا سامنا ہے۔ آئے روز سیکیورٹی اہلکار ہمارے گھروں پرچھاپے مارتے ہیں۔ مجھے بھی 16 سال کی عمر میں حراست میں لیا گیا اور مجھے عراق سے بے دخل کرنے کی دھمکی دی گئی۔ اپنے والد کو کھو دینے والے فلسطینی لڑکے نےکہا کہ ہمیں باربار اغواء کی دھمکیاں دی جاتیں۔ دھمکیوں کے بعد میرا بڑا بھائی ترکی چلا گیا۔ماں بھی چلی گئی۔ میں اپنی اہلیہ کے ساتھ جرمنی آگیا۔

منظم منصوبے کے تحت فلسطینی انتقام کا نشانہ

صحافی حسن خالد نے ‘قدس پریس’ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عراق کی جیلوں میں قید فلسطینیوں کی تعداد 50 سے زاید ہے۔ ان میں سے بیشتر پر بغیر کسی ثبوت کے دہشت گردی کا الزام عاید کیا جاتا ہے۔

خالد نے خبر دار کیا کہ عراق میں فلسطینی پناہ گزین کسی بھی سیکیورٹی اور سلامتی سے متعلق واقعے کے بعد آسان چارہ بن رہےہیں۔ کہیں کوئی دھماکہ ہوتا ہے تو اس کے قریب موجود کسی بھی فلسطینی کو بغیر کسی الزام کے دھر لیا جاتا ہے۔ عراقی فوج اور سیکیورٹی اداروں نے پندرہ فلسیطنی پناہ گزینوں کو جبری طور پراغواء کے بعد لاپتا کیا۔

فلسطینی صحافی کا کہنا ہے کہ عراق میں فلسطینی پناہ گزینوں کے خلاف منظم انداز میں مہم چلائی جاتی ہے۔ فلسطینیوں کی کردار کشی کی جاتی اور انہیں طے شدہ مجرم قرار دیا جاتا ہے۔ ایک درجن سے زاید فلسطینی گذشتہ پانچ سال سے جبری طور پرلاپتا ہیں۔

تشدد اور انسانی حقوق کی سنگین پامالیاں

حسن خالد کا کہنا تھا کہ عراق کی جیلوں میں فلسطینی قیدیوں پرغیرانسانی تشدد معمول بن چکا ہے۔ قیدیوں کے حقوق اور عالمی قوانین کی کھلے عام خلاف ورزیاں کی جاتی ہیں۔ اسیران اوران کے اقارب کو ملنے نہیں دیا جاتا۔

انہوں نے خبردار کیا کہ عراق میں فلسطینی اتھارٹی کے پاس اس بات کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں کہ زیرحراست فلسطینیوں کو تشدد کرکےاقبال جرم قرار دیا جاتا ہے۔

صحافی حسن خالد نے کہا کہ فلسطینی سفارت خانے کو فلسطینی پناہ گزینوں کو مجرم قرار دینے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ عراقی سیکیورٹی فورسز فلسطینی قیدیوں کے بارے میں جو معلومات فراہم کر رہےہیں وہ سراسر جھوٹ ہیں اور قیدیوں سے جبرا اعتراف جرام کرایا جاتا ہے۔

عراق میں قید فلسطینیوں کی رہائی کے حوالے سے فلسطینی اتھارٹی کا کوئی موثر اور ٹھوس کردار نہیں۔ انسانی حقوق ہائی کمیشن بھی فلسطینی پناہ گزینوں کے معاملے میں کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے اور فلسطینی قیدیوں کوعراقی فوج، سیکیورٹی اداروں اور نام نہاد عدالتوں کے رحم وکرم پرچھوڑا دیا جاتا ہے۔

مختصر لنک:

کاپی