حال ہی میں اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی کی سرحد پر ایک فلسطینی شہری محمد الناعم کو شہید کرنے کے بعد بلڈوزر کی مدد سے اس کی لاش کی بے حرمتی کی تو کئی سال قبل بلڈوزروں کی مدد سے فلسطینیوں کے خلاف جنگی جرائم کے واقعات ایک بار پھر فلمی سین کی طرح ذہن میں تازہ ہوگئے۔ ان میں اہم واقعہ امریکی سماجی کارکن راشیل کوری کا ہے جسے رفح کے علاقے میں 2003ء میں فلسطینیوں کے مکانات کی مسماری سے روکنے کے دوران بلڈوزر کے ذریعے کچل کر قتل کر دیا گیا تھا۔ اس واقعے کی پوری دنیا میں مذمت کی گئی اور اسے سنگین جنگی جرم کے طورپر پیش کیا گیا۔
کثیر المقاصد ہتھیار
غزہ کی پڑی کی سرحد پر سرنگوں کی تلاش کے لیے کھدائیوں کے لیے آپریشن ہو یا سڑکوں کے لیے کھدائی، فوجی کیمپوں کے لیے کھدائیاں ہوں یا غزہ کی پٹی پر جنگ مسلط کرنی ہو ان تمام مقاصد کے لیے بلڈورز کا استعمال اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا ہتھیار ہے جسے اسرائیلی فوج باقاعدہ طور پر جنگی مشقوں کے دوران بھی ساتھ رکھتی ہے۔
اسرائیل کے اس بدنام زمانہ بلڈزر کو ‘ڈی 9’ یا ‘الدب’ کہا جاتا ہے۔ اس کی مدد سے غزہ کی پٹی کو ملانے والے راستوں کو بند کیا جاتا ہے۔ فوجی گاڑیوں کے لیے راستےاور سڑکیں بنائیں جاتی ہیں۔ یہ سب کچھ غزہ کی پٹی پر چڑھائی کے لیے کیا جاتا ہے اور یہ تماشا روز کا معمول ہے۔
فلسطینی تجزیہ نگار اور عالمی قانون کے ماہر ڈاکٹر محمد النحال کا کہنا ہے کہ اسرائیلی بلڈوزر ٹینکوں کے ساتھ ساتھ غزہ کی پٹی میں داخل ہوتے ہیں تاہم اسرائیلی فوج اکثر وبیشتر اس مشین کو اس کے اصل مقاصد سے ہٹ کر یعنی جنگی جرائم میں استعمال کرتی ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے النحال نے کہا کہ اسرائیلی فوج نے بلڈوزروں کی مدد سے کئی سنگین جرائم کیے جو انسانیت کے ماتھے پر بدنما داغ ہیں۔ اسرائیلی فوج بلڈوزروں کی مدد سے جنگی جرائم کا کھلے عام استعمال کر رہی ہے مگر عالمی سطح پر صہیونی ریاست کو اس جرم کے ارتکاب کی پاداش میں کسی قسم کی پوچھ تاچھ نہ ہونے سے بلڈوزروں کے ذریعے جرائم مسلسل بڑھتے جا رہے ہیں۔
تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ عالمی برادری کی مجرمانہ خاموشی نے صہیونی فوج کے اس طرح کے جرائم کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ حالانکہ صہیونی فوج جس طرح کے جرائم کی مرتکب ہو رہی ہے حالانکہ یہ جرائم بین الاقوامی انسانی حقوق کی کھلی توہین ہیں۔
جنگی جرم
ایک سوال کے جواب میں النحال نے کہا کہ اسرائیلی فوج نے جس بے رحمی اور وحشت و بربریت کے ساتھ شہید فلسطینی محمد الناعم کے جسد خاکی کی بے حرمتی کی ہے وہ ایک جنگی جرم ہے۔ دنیا کا کوئی قانون اس طرح کے جرائم کی کسی صورت میں اجازت نہیں دیتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ صہیونی فوج نے ایک فلسطینی شہید کی لاش کی بے حرمتی صرف اس دعوے کے تحت کی کہ وہ ایک فلسطینی اورمسلح شخص تھا۔ پوری دنیا میں مزاحمت اور مسلح کارروائیاں ہوتی ہیں۔ بین الاقوامی قوانین کسی جنگجو کی لاش کی اس بے دردی اور بے رحمی کے ساتھ بے حرمتی کی اجازت نہیں دیتا۔
انہوں نے کہا کہ صہیونی فوج نے جس طرح فلسطینی کی لاش کی بے حرمتی کا ارتکاب کیا اسے سنگین جرم سے بھی کوئی بڑا نام دیا جانا چاہیے۔ ایسے جرائم پر اسرائیلی فوج کے خلاف بین الاقوامی فوج داری عدالت میں مقدمات چلائے جانے چائیں۔
دنیا کے لیے پیغام
بین الاقوامی قانون کے ماہر حنا عیسیٰ کا کہنا ہے کہ شہید الناعم کی لاش کی بے حرمتی اسرائیل کی طرف سے عالمی برادری کے لیے واضح پیغام بھی ہے۔ اسرائیل دنیا کو یہ بتانا چاہتا ہے کہ وہ فلسطینی قوم کے خلاف سنگین نوعیت کے استبدادی اور وحشیانہ جرائم کا کھلے عام مرتکب ہو رہا ہے اور دنیا کی کوئی طاقت یا قانون اسے نہیں روک سکتا۔
مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسرائیلی بلڈوزر کا ڈائیور کوئی عام آدمی نہیں ہوسکتا وہ ھاشومیر یونٹ یونٹ کے قاتل مافیا کا ایک مجرم ہوگا جس نے سنہ 1909ء میں فلسطینی قوم کے خلاف اجتماعی قتل عام کا ارتکاب کیا۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ صہیونی انتہا پسند اور نسل پرست یہودی فلسطینی قوم کے خلاف طاقت کے وحشیانہ استعمال میں آزاد ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہیگ اور چوتھے جنیوا کنونش میں کسی انسانی لاش کی بے حرمتی کو عالمی جنگی جرم قرار دیا گیا ہے۔ مگر فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی بربریت پر عالمی برادری کی مُجرمانہ خاموشی بجائے خود ایک سنگین جرم ہے۔