اسلامی تحریک مزاحمت’حماس’ کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ھنیہ جماعت کے اعلیٰ اختیاراتی وفد کے ہمراہ کثیر غیرملکی دورے پر ہیں۔ وہ دو ہفتے قبل غزہ سے مصر گئے جہاں سے ترکی اور وہاں سے قطر پہنچے ہیں۔
حماس نے ان کے بیرون ملک دورے سے بھرپور استفادے کی کوشش کی ہے۔ ان کے دورے کے اہم مقاصد میں قضیہ فلسطین کے لیے عالمی برادری کی حمایت کا حصول اور حماس کے عالمی ، عرب اور اسلامی سطح پر تعلقات کو مزید کو مستحکم کرنا ہے۔ حماس کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ جماعت کی صف اول کی قیادت کا کثیر غیرملکی دورہ صرف ملک وقوم کے مفاد میں ہے۔
ھنیہ دو دسمبر کوغزہ کی پٹی سے مصر کے لیے روانہ ہوئے۔ مئی 2017ء کے بعد ان کا بیرون ملک کا یہ دوسرا دورہ ہے۔ بیرون ملک دورے کے دوران اسماعیل ھنیہ نے مصر میں پہلا پڑائو کیا۔ انہوں نے کئی روز تک قاہرہ میں قیام کیا جہاں حماس کی اندرون بیرون ملک کی قیادت جمع تھی۔انہوں نے مصری حکام کے ساتھ بات چیت کے علاوہ اسلامی جہاد کی قیادت سے بھی مذاکرات کیے۔ اس کے بعد ھنیہ جماعت کی قیادت سمیت ترکی روانہ ہوگئے جہاں انہوں ترک صدر رجب طیب ایردوآن سے بھی ملاقات کی۔ تیسرے مرحلے میں انہوں نے قطر کا دورہ کیا اور امیر قطر الشیخ تمیم بن حمد آل ثانی کے ساتھ ملاقات کی۔
دورے کی اہمیت
تجزیہ نگار اور دانشور ابراہیم المدھون نے اسماعیل ھنیہ کے بیرون ملک دورے کو ‘اہمیت’ کا حامل قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ایک قومی جماعت کی حیثیت سے حماس کی قیادت کی عرب ممالک، مسلم دنیا اور عالمی برادری کے ساتھ اپنے تعلقات کو وسعت دینا حق ہی نہیں بلکہ یہ جماعوت کی ذمہ داری بھی ہے۔
المدھون کا کہنا ہے کہ اسماعیل ھنیہ کی امیر قطر الشیخ تمیم بن حمد آل ثانی اور ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن کے ساتھ ملاقات نے ان کے بیرون ملک دورے کی اہمیت مزید دو چند کردی۔
انہوں نے کہا کہ اس دورے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حماس نہ صرف فلسطین بلکہ علاقائی سطح پر تزویراتی اہمیت رکھتی ہے۔ ترکی اور قطر جیسے ممالک کی طرف سے حماس کو غیرمعمولی پذیرانی ملنا جماعت کی اہمیت کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔
انہوں نے کہا کہ ھنیہ ایک قومی فلسطینی شخصیت ہیں جن کے عالمی رہنمائوں اور مسلم دنیا کی قیادت کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں۔ اسماعیل ھنیہ اپنے ان تعلقات اوراثرو رسوخ کواستعمال کرتے ہوئے قضیہ فلسطین کے حصول کے لیے امداد کے حصول کی کوشش کرتے ہیں۔
فلسطینی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ حماس نے امریکا کی صدی کی ڈیل کی سازش کا مقابلہ کرنے کے ساتھ ساتھ عرب ممالک اور عالم اسلام کو بھی اس حوالے سے اعتماد میں لینے کی بھرپور کوشش کی ہے۔
حماس کی قیادت کو کولالمپور کی سربراہ کانفرنس میں شرکت سے بھی جماعت کی عالمی سطح پر اہمیت کی عکاسی ہوتی ہے۔
تعلقات کا فروغ
فلسطینی تجزیہ نگارایاد القرا کا کہنا ہے کہ حماس کی قیادت اور اسماعیل ھنیہ کا بیرون ملک دورہ اہمیت کا حامل ہے۔ ان کے بیرون ملک دورے کا مقصد جماعت کے عالمی سطح پر تعلقات کو مضبوط اور مستحکم کرنا ہے۔
ایاد القرا کا کہنا ہے کہ حماس اسماعیل ھنیہ کے بیرون ملک دورے کو زیادہ سے زیادہ اہمیت کا حامل بنانا اور قضیہ فلسطین کے مفاد میں بنانا چاہتا ہے۔
اسماعیل ھنیہ کا طیب ایردوآن اور الشیخ تمیم بن حمد آل ثانی کی جانب سے اسماعیل ھنیہ کا استقبال اور قضیہ فلسطین کے لیے حمایت اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ عالمی اور اسلامی سطح پرحماس کےتعلقات مضبوط اور مستحکم ہو رہے ہیں۔
القرا کا کہنا ہے کہ کوالالمپور اجلاس میں حماس کےوفد کی شرکت دیگر اسلامی قوتوں کے نزدیک حماس کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔ اس اجلاس میں عرب اور مسلمان ممالک کی سیکڑوں موثر اور سرکردہ شخصیات شرکت کر رہی ہیں۔