فلسطینی سرزمین پر صہیونی ریاست کی توسیع پسندی اور غاصبانہ قبضے کی اشتہا مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔ سنہ 1967ء کی چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ کے دوران دریائے اردن کے مغربی کنارے اور وادی اردن پر طاقت کے بل پر قبضہ کر لیا۔ اس وقت یہ دونوں علاقے اردن کے زیرانتظام تھے۔ سنہ 1967ء کی جنگ میں قبضے میں لیے گئے علاقوں پر یہودی آباد کاروں کا ناجائز تسلط مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ وادی اردن کا علاقہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ قدرتی وسائل کے علاوہ فلسطین کی مشرقی سرحد پر واقع ہونے کی بہ دولت وادی اردن کی ‘جیو پولیٹکل’ اہمیت بھی غیرمعمولی ہے۔
وادی اردن اور شمالی بحر مردار کاعلاقہ 16 لاکھ دونم پر مشتمل ہے جو مربع شکل میں ہے۔ اس میں 56 ہزار فلسطینی آباد ہیں جو کل غرب اردن کی آبادی کا صرف 2 فی صد اور 27 کالونیوں میں رہائش پذیر ہیں۔
وادی اردن کی 2 لاکھ 80 ہزار دونم زمین زراعت کے لیے قابل کاشت ہے۔ یہ رقبہ وادی کے کل رقبے کا 38 اعشاریہ 8 فی صد ہے۔ فلسطینی اس میں سے 50 ہزار دونم کو استعمال کرتے ہیں جب کہ 27 ہزار دونم رقبے پر یہودی آباد کاروں کا قبضہ ہے۔
غرب اردن کی 50 فی صد اراضی پیداواری اور 60 فہ صد شہری ہے جب کہ 85 فی صد آبی ذرائع پر اسرائیلی ریاست کا قبضہ ہے۔
یہودی کالونیوں پر مشتمل پٹی
اسرائیل کی انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ‘بتسلیم’ کے مطابق وادی اردن میں اسرائیل نے 27 کالونیاں تعمیر کی ہیں جن میں 9 ہزار 500 آباد کاروں کو بسایا گیا ہے۔ یہ آباد کار وادی اردن کے 12 فی صد رقبے پر آباد ہیں۔
وادی اردن کے ایک بڑے حصے پر اسرائیلی فوج نے کیمپ بنا رکھے ہیں ان کیمپوں کی آڑ میں وادی کی 4 لاکھ دونم قبضے میں لے رکھا ہے جو کہ وادی کے کل رقبے کا 55 اعشاریہ 5 فی صد ہے۔ سنہ 1967ء کی جنگ کے بعد صہیونی فوج نے اب تک 90 کیمپ قائم کر رکھے ہیں۔
اقتصادی خزانہ
اقتصادی تجزیہ نگار مازن عواد نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عالمی تحقیقاتی مطالعوں سے پتا چلتا ہے کہ اگر فلسطینیوں کو وادی اردن کے تمام رقبے تک رسائی دی جائے تو فلسطینی غیرملکی امداد سے بے نیاز ہوں گے۔ وادی اردن معیشت کا خزانہ ہے اور وہاں سے ایک ارب ڈالر ماہانہ زرمبادلہ کمایا جاسکتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اوسلو معاہدے کے تحت سیکٹر اے کا 7 اعشاریہ 4 فی صد، سیکٹر ‘بی’ کا 4 اعشاریہ 3 فی صد اور سیکٹر’سی’ کے 1155 مربع کلو میٹررقبے کو اسرائیل کو استعمال کرنے کی اجازت دی گئی۔
وادی اردن سے اس وقت پر قابض یہودی آباد کار اس وقت سالانہ 50 کروڑ شیکل کی آمدنی حاصل کرتے ہیں۔
بہ تدریج ہجرت
تجزیہ نگار عارف دراغمہ نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئےکہا کہ اسرائیل سنہ 1967ء کی جنگ کے بعد بہ تدریج وادی اردن کے باشندوں کو وہاں سے بے دخل کرنے کی سازش کر رہا ہے۔
قابض صہیونی فوج نے وادی اردن میں 90 کیمپ قائم کر رکھے ہیں۔ جب کہ یہودی کالونیاں اس کے علاوہ ہیں۔ دوسری طرف وادی اردن میں فلسطینیوں کے وجود کو مزید کم اور محدود کیا جا رہا ہے۔ فوجی سرگرمیوں کی آڑ میں 7 لاکھ 86 ہزار دونم کے علاقوں سے فلسطینیوں کو بےخل کیا گیا ہے۔ یہ رقم وادی اردن کے کل رقبے کا 45 فی صد ہے۔
اسرائیلی انسانی حقوق گروپ کے مطابق سنہ 2006ء کے بعد قابض صہیونی وج نے وادی اردن میں فلسطینیوں کے 800 مکانات منہدم کیے جس کے نتیجے میں 50 ہزار فلسطینی بے گھر ہوئے۔