امریکا میں گھر پرنظربند فلسطینی سائنسدان عبدالحلیم الاشقر کو اسرائیل کے حوالے کیے جانے کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔
عبدالحلیم الاشقر کی اہلیہ اسماء مھنا نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے شوہر کو امریکا میں گھر پرنظربند کیا گیا ہے۔ ان کے حوالے سے امریکی حکومت کے ساتھ کوئی معاہدہ طے نہیں پا سکا ہے۔ خدشہ ہے کہ کسی بھی وقت امریکا پروفیسر ڈاکٹر الاشقر کو امریکا کے حوالے کردے گا۔
ایک سوال کے جواب میں مھنا کا کہنا تھا کہ ان کے شوہر کے حوالے سے جاری تنازع کے حل میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ کوشش کی جا رہی ہے کہ الاشقر کو اپنے ہاں کوئی ملک سیاسی پناہ دے دے جس کے بعد انہیں امریکا سے وہاں منتقل کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی ملک کی طرف سے ڈاکٹر الاشقر کو پناہ نہ دی گئی تو خدشہ ہے کہ انہیں اسرائیل کےحوالے کردیا جائے گا۔
امریکی ریاست ورجینیا میں مقیم فلسطینی سائنسدان کی اہلیہ نے امریکی حکومت سے سے مطالبہ کیا کہ وہ ان کے شوہر کو اسرائیل کے حوالے نہ کرے۔ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر الاشقر کی گرفتاری اور ان کی اسرائیل حوالگی کا خطرہ بدستور موجود ہے۔
قبل ازیں پروفیسر الاشقر کے بھائی موئید الاشقر نے مرکزاطلاعات فلسطین کو دیے گئے انٹرویو میںکہا تھا کہ انہوںنے ذاتی طورپر فلسطینی اتھارٹی کی وزارت خارجہ کے حکام کے ساتھ رابطہ کیا تاکہ امریکا میں رہائی پانے کے بعد وہ اپنے بھائی کو کسی دوسرے ملک بھجوا سکیں۔
خیال رہے کہ رہائی کےبعد 61 سالہ فلسطینی پروفیسر نے بتایاکہ امریکی خفیہ اداروں نے جاسوسی کے لیے اس کے پائوں کے ساتھ "GPS” سسٹم نصب کررکھا ہے۔
پروفیسر الاشقر کےخاندانی ذرائع کا کہنا ہے کہ رہائی کے بعد عبدالحکیم الاشقر کو فوری طور پرملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔ حال ہی میں اس وقت عالمی سطح پر ایک نئی تشویش کی لہر اس وقت دوڑ گئی تھی جب یہ خبریں آئیں کہ امریکا فلسطینی سائنسدان کو اسرائیل کے حوالے کرنے کی تیاری کررہا ہے۔ اس پر فلسطینی اور عالمی انسانی حقوق کے حلقوں کی طرف سے سخت غم وغصے کا اظہار کیا گیا تھا۔
پروفیسر الاشقر کے خاندانی ذرائع کا کہنا تھا کہ امریکا میں قید کی سزا پوری کرنے کے بعد ایک خصوصی طیارہ پروفیسر الاشقر کو اسرائیل لے جائے گا۔
سنہ 1958ء کو غرب اردن کے شہر طولکرم میںپیدا ہونے والے فلسطینی عبدالحلیم الاشقر لبنان، امریکا، یونان اور کئی دوسرے ملکوں کی جامعات سے فارغ التحصیل ہیں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ شخصیت سمجھے جاتےہیں۔ وہ امریکا کی مختلف جامعات میں پڑھاتے رہےہیں۔ گرفتاری سے قبل وہ امریکا کی ہارورڈ یونیورسٹی سے وابستہ تھے۔ سنہ 2003ء میں انہیں اسلامی تحریک مزاحمت’حماس’ کے ساتھ تعاون اور جماعت کے لیے فنڈنگ کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ تاہم انہیں اس کے بعد رہا کرکے گھر پرنظربند کردیا گیا تھا۔ سنہ 2007ء کو انہیں دوبارہ گرفتار کیا گیا اور ان پر حماس سے تعلق کےالزام میں مقدمہ چلایا گیا ہے۔