شنبه 16/نوامبر/2024

مُعلمہ جس کی ایک عید فلسطینی اتھارٹی، دوسری اسرائیلی جیل میں گذری

جمعرات 15-اگست-2019

‘میری لخت جگر آلا ایک عقوبت خانے سے دوسرے عقوبت خانے، ایک تفتیش سے دوسری تفتیش، ایک جیل سے دوسری جیل میں’۔ یہ الفاظ اس فلسطینی معلمہ کی ستم رسیدہ ماں کے ہیں جس کی جواں سال بیٹی گذشتہ کئی ماہ سے فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیلی ریاست دونوں کے ظلم وستم کا شکار ہے۔

مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق غرب اردن کے شہر قلقیلیہ سےتعلق رکھنے والی دینی مدرسے کی معلمہ اور حافظ قرآن آلا بشیر کی عید الفطر فلسطینی اتھارٹی کی جیل میں گذری جب کہ عیدالاضحیٰ کے موقع پر وہ اسرائیلی ریاست کے زندانوں میں قید ہے۔

آلاء کی ماں نے درد اور دکھ بھرے لہجے میں کہا کہ ان کی دو عیدیں خوشی کے بجائے المیے میں گذریں۔ ماہ صیام، عیدالفطر اور اب عید الاضحیٰ کے موقع پر میری بیٹی کو میرے خاندان سے دور کردیا گیا۔ ہم ایک ساتھ رمضان گذار سکے، نہ عیدالفطر اور نہ عید الفطر میں ایک دوسرے یو دیکھ سکے ہیں۔

فلسطین کی 23 سالہ اس بیٹی کا جرم صرف یہ ہے کہ وہ بچوں کو دین اسلام اور قرآن کی تعلیم دیتی ہے۔

اس کی ماں اسمھان یوسف نے کہا کہ اس کی بیٹی کو اسرائیلی زندانوں میں غیرانسانی تشدد کا سامنا ہے۔ اس پر بدترین جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی تشدد کے مختلف حربے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ اسے بلیک میل کرنے کے لیے بار بار ایک سے دوسری جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے۔ تفتیش کار بدل بدل کراس پرتشدد کرتے اور دبائو ڈالنے کے لیےاپنے مکروہ حربے استعمال کرتے ہیں۔

آلاء بشیر کی ماں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی عدالت نے اس کی بیٹی کے جسمانی ریمانڈ میں مزید توسیع کردی ہے۔

خیال رہے کہ 23 سالہ آلاء بشیر فلسطین میں حفظ قرآن کریم کے ایک مدرسے کی معلمہ ہیں۔ اسے فلسطینی اتھارٹی کے انٹیلی جنس حکام نے پہلی بار مئی میں حراست میں لیا اور 34 دن تک تشدد کرنے کے بعد رہا کیا مگر چار دن کی قید کے بعد انہیں دوبارہ حراست میں لے لیا گیا۔ دوسری بار اس کی رہائی 21 جولائی کو 6 ہزار اردنی دینار کی ضمانت پرعمل میں آئی۔ فلسطینی اتھارٹی کی قید سے رہائی کے بعد آلاء کو اسرائیلی فوج نے حراست میں لے لیا۔ اسے دامون نامی بدنام زمانہ حراستی مرکز میں قید تنہائی میں رکھا گیا ہے۔

مختصر لنک:

کاپی