عرب ملکوں میں عارضی طور پر بسائے گئے فلسطینی پناہ گزینوں کی مشکلات کے کئی پہلو ہیں۔ ان میں ایک بڑا مسئلہ ان کا دوسرے ملکوں کے لیے سفر ہے۔ پہلے تو فلسطینی پناہ گزینوں کو آسانی کے ساتھ سفری دستاویزات اور پاسپورٹ نہیں مل پاتے تھے۔ انہیں دستاویزات کی تیاری میں مہینوں تک دفتروں کے چکر لگانے پڑتے اور پاپڑ بیلنا ہوتے ہیں۔ جب دستاویزات تیار ہو جائیں تو ان پر سفر کرنا بھی کوئی آسان کام نہیں۔ فلسطینی پناہ گزینوں کو عرب ممالک اور دوسرے ملکوں کے ہوائی اڈوں پر سفر کے دوران عجیب وغریب سوالات، پابندیوں اور قدغنوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کئی بار ایسا بھی ہوا کہ تمام تر قانونی تقاضے پورے کرنے اور دستاویزات رکھنے کے باوجود فلسطینی پناہ گزینوں ہو ہوائی اڈوں کے دروازوں پر گرفتار کر لیا جاتا ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق محمد یونس ایک ایسے ہی فلسطینی پناہ گزین ہیں کی داستان سفرناقابل بیان حد تک دلخراش اور المناک ہے۔ اگرچہ اس طرح کی کوئی ایک داستان نہیں بلکہ ہردوسرے فلسطینی پناہ گزین کی کہانی محمد یونس سے مختلف نہیں۔ محمد یونس کے ساتھ پیش آنے والے واقعات سے یہ اندازہ بہ خوبی لگایا جا سکتا ہے کہ فلسطینی پناہ گزینوں کے ساتھ دنیا کے دوسرے ملکوں میں کیسے کیسے ‘سوتیلے’ سلوک اور رویے اپنائے جاتے ہیں۔
محمد یونس شام میں فلسطینی پناہ گزین کے طور پر مقیم رہا۔ وہاں سے اس نے باعزت اور محفوظ زندگی گذارنے کے لیے دوسرے عرب اور مسلمان ملکوں کا سفر شروع کیا۔ شام میں جب فلسطینی پناہ گزینوں پر عرصہ حیات تنگ ہوگیا تو محمد یونس کو چارو ناچار دوسرے ملکوں کا سفر کرنا پڑا۔
طویل تگ ودو کے بعد وہ عراق کے شہر اربیل پہنچا۔ وہاں سے اس نے ترکی کے سفر کا قصد کیا مگر ترکی میں داخل ہوتے ہی اسے غیر قانونی طریقے سے ملک میں داخل ہونے کے الزام میں حراست میں لے لیا گیا۔ حال ہی میں اس نے ایک فوٹیج کے ذریعے ترک حکام سے ملک ترکی سے بے دخل نہ کرنے کی اپیل کی ہے۔ یہ کسی فلسطینی پناہ گزین کی ترک حکومت سے پہلی اپیل نہیں بلکہ اس طرح کی انت گنت اپیلیں کی گئی ہیں۔ محمد یونس کے اہل خانہ کی طرف سے بھی ترک حکومت سے ہمدردانہ گذارش کی گئی ہے کہ وہ یونس کو انسانی بنیادوں پر قید سے رہا کرے اور اسے ترکی میں قیام کا موقع فراہم کیا جائے۔
اس طرح کی ان گنت اپیلیں ہوا میں اڑا دی گئیں۔ فلسطینی تجزیہ نگار فائز عید کا کہنا ہے کہ فلسطینی پناہ گزینوں کے معاشی مسائل کی ذمہ دار اقوام متحدہ کی قائم کردہ ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی ‘اونروا’ ہے اور اس کے بعد بعض فلسطینی تنظیمیں ہیں جو فلسطینیوں کو دوسرے ملکوں کے سفر پر اکساتی ہیں۔
‘قدس پریس’ سے بات کرتے ہوئے فائز عید نے کہا کہ فلسطینی پناہ گزینوں نے بیروت میں کینیڈین سفارت خانے کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ ان فلسطینیوں کو معاشی مسائل کی وجہ سے کینیڈا بھیجنے کی مہم چلائی جا رہی ہے، مگر ‘اونروا’ کی طرف سے فلسطینی پناہ گزینوں کے حقوق کے حوالے سے کوئی کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔
شام میں فلسطینی پناہ گزینوں کو پہلے ترکی اور یورپ سمیت کئی ممالک سفری دستاویزات کے مطابق داخل ہونے کی اجازت دیتے تھے مگر اب ان ملکوں نے بھی فلسطینی پناہ گزینوں کے داخلے پر پابندی عاید کر دی ہے۔
ترکی جو پہلے پہل شام کی طرف سے جاری کردہ دستاویزات کے مطابق فلسطینیوں داخلے کی اجازت دیتا تھا مگر اب صرف فلسطینی اتھارٹی نے کی طرف سے جاری کردہ دستاویزات کے سوا اور کوئی سفری دستاویز قبول نہیں کرتا۔
ترکی کی طرف سے عاید کردہ اس پابندی کے بعد فلسطینی پناہ گزینوں کے ترکی کے سفر کے خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوپاتے۔