فلسطینیوں کو اذیت سے دوچار کرنے کے صہیونی حربے اور ہتھکنڈے ویسے تو بے شمار ہیں مگر ان میں ایک ایک انتہائی اذیت ناک ہتھکنڈہ ماہ صیام میں روزہ دار فلسطینی قیدیوں اور ان کے اہل خانہ کو عدالتوں میں گھسیٹنا ہے۔ عام دنوں کی نسبت اسرائیلی عدالتوں میں فلسطینی قیدیوںکے مقدمات کی سماعت کے کیسز کی تعداد غیر معمولی کیوں ہوتی ہے۔ اس سوال کا جواب اب ہماری سمجھ میں آیا کہ صہیونی ریاست ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت روزہ دار فلسطینی قیدیوں اور ان کے اقارب کو عدالتوں میں گھسیٹ کر انہیں روزے کی حالت میں ایک نئی اذیت میں ڈالنا چاہتی ہے۔
روزہ دار فلسطینی قیدیوں کے عزیز و اقارب کا کہنا ہے کہ روزے کی حالت میں اسرائیلی عدالتوں کے چکر لگانا ایک مکروہ ہتھکنڈہ ہے۔ اسیران کے اہل خانہ کو بعض اوقات طویل سفر طے کرکے صہیونی عدالتوں میں اپنے اقارب قیدیوں کے مقدمات کی سماعت کے موقع پر پیش ہونا پڑتا ہے۔ بعض اوقات سحری سے شروع ہونے والا سفر نصف النہار تک جاری رہتا ہے اور تکلیف دہ سفر میں گرمی کے موسم میں شدید پیاس لگنا اور جسم کی تھکاوٹ جیسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اسرائیل کی فوجی عدالت ‘سالم’ میں پیشی کے لیے لائے گئے قیدیوں اور ان کے اقارب نے کہا کہ انہیں عدالت تک پہنچنے کے لیے طویل اور کئی مراحل کےعذاب سے گزرنا پڑتا ہے۔ جگہ جگہ تلاشی کی آڑ میں شہریوں کو چوکیوں پر گھنٹوں کھڑے رکھا جاتا ہے۔ چند منٹ کی سماعت میں پہنچنے کے لیے اسیران کے اقارب کو طویل اور انتہائی تکلیف دہ مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔
بدترین سختیاں
اسرائیلی زندان میں پابند سلاسل فلسطینی بچے احمد صبری کے والد عیسی صبری نے اسیران میڈیا سینٹر سے بات کرتے ہوئے اپنے تکلیف دہ اور صبرآزما سفر کے بارے میں بتایا کہ انہوں نے دو روز قبل مجد جیل میں قید اپنے بیٹے کی پیشی کے موقع پر سالم عدالت میں حاضر ہونے کے لیے سفر شروع کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں قلقیلیہ سے سالم عدالت کی طرف نکلا تو میرا دونوں طرف آنے جانے کا سفر 200 کلو میٹر تھا۔ ماہ صیام میں اتنا طویل سفر انتہائی تکلیف دہ اور صبر آزما ہے۔
صبری نے مزید کہا کہ صہیونی فوج ماہ صیام میں سفر کے دوران فلسطینی روزہ داروں پر سختیاں دانستہ طور پر بڑھا دیتے ہیں۔ جسمانی تھکاوٹ اور نفسیاتی مشکلات بھی اس تکلیف دہ سفر کا لازمی نتیجہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے سفر کا آغاز سحری کے وقت کھانے سے کیا اور شام کو مشکل سے میں اپنے گھر افطاری کے وقت پہنچ پایا۔
دانستہ انتقام
مریض فلسطینی اسیر لوئی فریج کی اہلیہ نے بتایا کہ ماہ صیام میں سالم عدالت میں پہنچنا بہت مشکل اور خود کو ایک مصیبت میں ڈالنے سے کم نہیں۔ انہوں نے کہا کہ میرے شوہر کو ماہ صیام میں عدالت میں پیش کیا جانا تھا۔ میں سحری کے بعد اپنے گھر سے نکلی اور طویل اور تکلیف سفر کے بعد عدالت میں پہنچی تو تھکاوٹ سے چور ہوچکی تھی۔ وہاں عدالت میں اپنے شوہر کی پیشی کے لیے انتظار کرنا پڑا۔
عمر رسیدہ فلسطینی محمود عفانہ کا کہنا ہے کہ میرے دو بیٹے محمد سامح اور میسرہ اسرائیل کی مجد جیل میں قید ہیں۔ میں پیرانہ سالی کی وجہ سے ماہ صیام میں عدالت میں پیش نہیں ہوسکتا۔
انہوں نے کہا کہ مجھ جیسا کمزور اور ناتواں شخص طویل سفر اور انتظار کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ قابض صہیونی فوج ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت روزہ دار قیدیوں اور ان کے اقارب کی عدالتوں میں تذلیل کرتی ہے۔
59 سلاہ اسیر عبدالحلیم باشا کے بھائی اسماعیل باشان نے کہا کہ ماہ صیام میں اسرائیلی عدالتوں میں پیش ہونا خاندان کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔
انہوں نے بتایا کہ میرے اسیر بھائی کو فشار خون کی دوائی اور انسولین لینا ہوتی ہے مگر ماہ صیام میں صہیونی دانستہ طور پر اسے دوائی سے محروم کر کے انہیں ایک نئی مشکل میں ڈال دیتے ہیں۔